ColumnImtiaz Aasi

احسان فراموشی .. امتیازعاصی

امتیازعاصی

 

روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو شہید جنرل ضیاء الحق نے افغانستان سے یہاں آنے والے لاکھوں مہاجرین کی فلاح وبہبود کیلئے کمیشن قائم کیا ۔اس دور میں25 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے پاکستان میں نقل مکانی کی۔وقت گذرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا۔یہ وہ دور تھا جب امریکہ اور یورپی ملکوں سے ان مہاجرین کیلئے ان گنت ڈالر ملا کرتے تھے اورافغان کمیشن میں کام کرنے والے افسران ڈالروں میں کھیلا کرتے تھے۔ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے باہر افغانوں کی ویزے کے حصول کیلئے لمبی لمبی لائن لگی ہوتی تھی، اب بھی کوئی جا کر دیکھے تو صورت حال کچھ کم نہیں۔کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر کھڑے لوگوں کیلئے یہ بہت بڑا بزنس ہے۔جوں جوں وقت گذرتا گیا، ان پناہ گزینوں نے قومی شاختی کارڈ بنوا نا شروع کر دیئے اور چاروں صوبوں میں جائیدایں اور کاروبار سنبھال لیے۔حیرت تو اس بات کی ہے کہ وہ افغان مہاجرین جن کے پاس نہ تو پاکستان کے شناختی کارڈ ہیں اور نہ ہی یواین کے پی او آر کارڈ ہیں، اس کے باوجود وہ یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔کوئی مانے نہ مانے افغان پناہ گزینوں کے یہاں آنے سے ہماری معیشت پر برے اثرات تو پڑے ہی تھے، ساتھ ہی جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیاہے ۔
قتل ڈکیتی اور بم دھماکوں میں ملوث بہت سے افغان اب بھی جیلوں میں ہیں۔پاکستان واحد ملک ہے،جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے غیرقانونی قیام کرنے والے افغان پناہ گزینوں کے سامنے بے بس ہیں۔طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد امید تھی کہ افغان مہاجرین اپنے وطن لوٹ جائیں گئے، ورنہ ایران میں افغان مہاجرین آج بھی کیمپوں میںہیں۔افغانستان میں کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے اب تو نہ ماضی کی طرح وہاں اس تیزی سے دھماکے ہو رہے ہیں اور امن وامان کی صورت حال بھی طالبان حکومت کے کنٹرول میں ہے، اس کے باوجود افغان مہاجرین واپس جانے کو تیار نہیں۔ آج کل سندھ میں کچھ پکڑدھکڑ ہو رہی ہے جو خوش آئند بات ہے۔ ماضی میں جائیں تو افغانستان دنیا میں واحد ملک تھا جس نے قیام پاکستان کی اقوام متحدہ میں مخالفت کی تھی۔پشتونستان کاشوشہ افغان حکومت نے چھوڑا تھا۔افغانستان نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہمارے خلاف فوجی کارروائیوں کے علاوہ علیحدگی پسند تحریکوں کی پشت پناہی کی۔افغان حکومت نے پشتونستان کاایک خود ساختہ جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان کی بنیاد رکھی۔
اسی دور کی بات ہے افغانستان نے نجیب اللہ نامی اپنے ایلچی کو پاکستان بھیج کر قبائلی علاقوں سے دستبردار ہونے کو کہا۔ بلوچستان کے ذریعے سمندر تک رسائی کیلئے راہداری طلب کی جس پر افغانستان کا مکمل کنٹرول ہو۔ جب پاکستان نے یہ شرط قبول کرنے سے انکار کر دیا تو ہمیں جنگ کی دھمکی دی گئی۔افغانستان حکومت نے قبائلی علاقوں کے امور سے متعلق باقاعدہ ایک نئی وزارت بنائی جس کا مقصد قبائلی علاقوں( سابقہ فاٹا)میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنا اور قبائلیوں کو مملکت خداداد کے خلاف بغاوت پر اُکسانا تھا۔اسی عرصے میں افغانستان حکومت نے پرنس عبدالکریم بلوچ کو اپنے علاقے میں کیمپ قائم کرنے کی اجازت دے دی جس کا مقصد بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو فروغ دینا تھا۔اس کے ایک سال بعد افغان فضائیہ کے چند طیاروں نے فاٹا میں پمفلٹ گرائے جن کے ذریعے قبائلیوں کو آزاد پشتونستان کی تحریک کیلئے اکسانا تھا۔اسی دور میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک پشتون سردار میر زالی خان نے پاکستان حکومت سے آزاد پشتونستان کامطالبہ کر
دیا۔ افغانستان کی حکومت نے نہ صرف میرزالی کو اپنے ہاں پناہ دی بلکہ پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ کیلئے ٹرنینگ کیمپ بنا کر دیئے۔ایک موقع پر افغانستان کی فوج نے چمن کا بارڈر کراس کرکے پاکستان پر حملہ کر دیاجو ہماری بہادر افواج نے پسپا کر دیا۔1950میں سردار میرزالی نے اعلان کیا کہ اسے افغانستان کی حکومت نے اسلام کے نام پر پاکستان کے خلاف لڑنے پر اُکسایا تھا۔اسی دور میں افغان حکومت نے بھارت سے مل کر مملکت کے مشرقی جانب سے حملہ کر نے کی کوشش کی ۔1955افغان صدر داود خان نے پاکستان کے خلاف نفرت آمیز تقریر کرکے پاکستان کے خلاف مظاہرے شروع کر ادیئے اور کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کو نذر آتش کر دیا۔ساٹھ کی دہائی میں افغان فوج نے باجوڑپر مشین گنوں سے گولہ باری کی جو تین روز تک جاری رہی جس کے بعد پاک فضائیہ نے افغان فوج پر بمباری کی۔اسی دور میں ایک بلوچ سردار شیر محمد مری کو افغانستان میں ٹریننگ کیمپ قائم کرنے کی اجازت دے کر بی ایل اے کی بنیاد رکھی ۔1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران افغان فوج نے مہمند ایجنسی پر حملہ کر دیا ۔ستر کی دہائی میں ناراض بلوچوں اور پشتونوں کواپنے ہاں ٹرنینگ کیمپ بنانے کی اجازت دی گئی اور اسی عرصے میں پشتونستان کاڈاک ٹکٹ جاری کرکے پشتونستان کی تحریک اُبھارنے کی ناکام کوشش کی اور یہ سلسلہ1975 تک جاری رہا۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی افغانستان کے راستے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات سے طالبان حکومت کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دراصل افغان طالبان اور تحریک طالبان ایک ہی سکے کے دورخ ہیںجنہوں نے امریکہ کے خلا ف مل کر لڑائی کی جس کے نتیجہ میں امریکہ کو افغانستان سے جانا پڑا۔ یہ کیسے ممکن ہے مملکت پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوں اور افغان حکومت اس سے لا تعلق ہو۔یہ تو ہماری بہادر افواج کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں ورنہ افغانستان اور بھارت مل کرہمیں کب کے تباہ کر چکے ہوتے۔ اب بھی وقت ہے حکومت پاکستان افغان پالیسی کا ازنو جائزہ لے ۔کم ازکم وہ افغان پناہ گزین جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں، انہیں تو اپنے وطن واپس کرنا چاہیے ۔افغان پناہ گزینوں کے یہاں قیام سے معاشی ، اخلاقی اور سماجی مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔روس کے خلاف پاکستان نے افغانستان کا بھرپور ساتھ دیا گندم اور دوسری اشیائے خورونوش آج بھی یہاں سے جار ہی ہیںاس کے باوجود افغانستان سے ہمیں خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے ،اب افغانستان میں کافی حد تک امن قائم ہو چکا ہے ہماری بہتری اسی میں ہے کہ احسان فراموش افغانوں کی فوری واپسی کے قدامات کئے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button