Column

معاشی جیک رسل .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

سہمے لوگ اور افسردہ چہرے، تلاش رزق میں مارے پھرتے عوام اور گھٹن کا سا ماحول، بازاروں کے سنسان چوراہے اور چائے خانوں کی اداسیاں، آنکھوں کی ویرانیاں، ماحول تو لاک ڈاون والا مگر اب کی بار معاشی، عوامی مقامات پر پٹرولیم کی قیمتوں کا رونا ہے تو بڑے شاپنگ مالز میں ڈالر کی بلند پرواز کے تذکرے، اہل وطن پر یہ آزمائش مفت میں تو آئی نہیں، ہجوم بے کساں بھی اس کا ذمہ دار ہے کہ انہوں نے ہی تو عشروں انہیں اپنے خون اور ملکی دولت سے پالا وہ اب نتیجہ خیز ہوئے تو شور اور شکوہ کیسا، جس طرح نیم کے کڑوے پتوں سے خون صاف ہوتا ہے اسی طرح بدعنوان اور نااہل حکمرانوں سے عوام کا دل و دماغ۔
70 سال پہلے کے فرانس کو یاد کیجیے، سری لنکا میں بھی اشرافیہ اور عوام کے درمیان فاصلہ مدتوں بڑھتا اور عربت و افلاس کے مارے لوگوں کا جنون پلتا رہا پھر محلات مسمار ہوئے اور اشرافیہ کا قتل عام یہ کھیل اب بھی جاری ہے، اس سے بھی ہمارے مقتدر طبقات سبق سیکھنے کے موڈ میں نہیں، موجودہ حکومت کی گیارہ جماعتیں جو چند ماہ پہلے تک مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرتی تھیں اب نشے میں ہیں، چند ماہ پہلے تک پی ٹی آئی کے دور میں عوام مہنگائی کی تپش پر آہ و فغاں کرتے تھے مگر اب تو اس آگ میں جل رہے ہیں مگر اب حالت یہ کہ شدت کرب سے چیخیں بھی نہیں نکلتیں۔ بوسیدہ اور کرپشن پر مبنی نظام ایک اقلیت کا محافظ ہے جسے سادہ زبان میں اشرافیہ کہتے ہیں۔ نظام انصاف کا حال سب کے سامنے اور ادارہ جاتی بے اعتمادی اور چپقلش عروج پر ہے۔ کپتان گندگی کے اس ڈھیر میں اترے تھے صفائی کرنے، مگر چیف ایگزیکٹو ہونے کے باوجود اب اپنی بے بسی کا رونا روتے ہیں۔ انہیں شاید ادراک نہ ہو سکا کہ بوسیدہ نظام کی بدبو کو خوش کن نعروں اور نیک آرزووں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کپتان کے دامن پر اگرچہ کرپشن کے داغ نہیں مگر اپنے منشور اور اداروں میں عدم تظہیر جیسی ناکامیاں تو انکے حصے میں ہیں کہ جس منشور اور تبدیلی کے وعدے کے ساتھ آئے تھے وہ بقول ڈاکٹر شاہد مسعود دھڑم دھوس ہو گیا۔ قرض کے مے پر چلنے اور قوم کی دولت پر پلنے والے حکمرانوں کو خبر ہے کہ آبادی کی غالب اکثریت یوٹیلیٹی بلز اور آٹا، دال اور سبزی خریدنے سے مجبور اور سفید پوشی کا بھرم بھی ٹوٹ چکاہے۔ آدھے سے زیادہ ملک سیلاب سے تباہ حال اور وفاق نے ان نے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے مزید مشیران کرام رکھ لیے۔ لولی لنگڑی کابینہ کا حجم کہتے ہیں 70 تک جا پہنچا اور ابھی بھی کئی منتظر کرم! اقتدار کے پچاریوں کو ادارک نہیں کہ عالمی طاقتوں نے انڈیا کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھا کے دیکھ لیا کہ رد عمل اتنا شدید کہ بھارت کو شہ دینے والے پریشان اور خوفزدہ ہو گیے کہ ان کی قومی غیرت اور حمیت ابھی زندہ ہے۔
اس لیے انہوں نے اب دوسرا راستہ اختیار کیا۔ براہ راست ٹکرائو کی پالیسی سے پیچھے ہٹے تو معاشی اور سیاسی طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں لگ گئے۔ آئی ایم ایف کا پیکیج ناک کی لکیریں نکلوا کر، ٹیکسز کی مد میں ناقابل برداشت بوجھ، سٹاک ایکسچینج کی مسلسل گراوٹ، ایکسپورٹس میں ترقی معکوس اور سب سے بڑھ کر بدعنوان ٹولہ مسلط کر کے وہ اپنے ہدف کی طرف کامیابی سے بڑھ رہے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ عالمی طاقتوں نے معاشی جیک رسل ہم پر چھوڑ رکھے ہیں مگر ہماری قیادت کی آنکھوں پر طاقت اور اختیار کی پٹی بندھی ہے۔ سیلاب سے تباہ حال ملک کے حکمران باوجود نااہلی اور غیر مقبولیت کے اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تو کپتان کا مطالبہ انتخابات۔ درست مگر بحیثیت پاکستانی اور تین کروڑ سے زائد متاثرین کے کرب اور مشکلات کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ کیا یہ وقت انتخابات کا ہے یا متاثرین کی بحالی کا اور دگرگوں ترین حالات متقاضی ہیں، نئے سیاسی و معاشی میثاق کے۔ ملک کے طاقتور ادارے اور سیاسی قیادت مہنگائی اور نظام سے بدحال عوام پر رحم کھائیں اور ماضی کی کوتاہیوں کو بھلا کر طویل المدت معاشی پالیسی تشکیل دے تا کہ معاشی استحکام بھی ہو اور سیاسی بھی، مگر ملین ڈالر سوال کہ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button