ColumnNasir Sherazi

مالشیا .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

وطن عزیز پاکستان میں درجن بھر درس گاہیں ایسی ہیں جو اپنی قسمت پر اس لحاظ سے ناز کرسکتی ہیں کہ وہاں ایسی شخصیات زیر تعلیم رہیں جنہوں نے بعد ازاں دنیا بھر میں عزت و شہرت حاصل کی بیشتر شخصیات نے اپنی کسی عظیم مقصد کو حاصل کرنے میں بسر کی جبکہ ہزاروں افراد ایسے ہیں جنہوں نے ان درس گاہوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اپنے شعبوں کی انتہائوں کو چھولیا۔ ایڈورڈ کالج پشاور، ایچی سن کالج لاہور، اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور، پنجاب یونیورسٹی کا شمار انہی اداروں میں ہوتا ہے لیکن سندھ مدرستہ الاسلام اور مرے کالج سیالکوٹ کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور کا یہ اعزاز ہے کہ یہاں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اورقائد اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم المرتبت ہستیاں زیر تعلیم رہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جاچکا ہے اسے جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کہتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی شخص کے تعارف میں بتایا جائے کہ انہوں نے ایم اے تو کررکھا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بی اے بھی کرچکے ہیں۔
گورنمنٹ کالج لاہور نے پاکستان کو وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف دیئے، اب تو ایچی سن کالج کے پروفائل میں بھی لکھاجائے گا کہ اس نے بھی پاکستان کو ایک وزیراعظم دیا لیکن اس وزیراعظم کی پہچان علمی میدان میں کوئی کارنامہ نہیں بلکہ کھیل کے میدان میں ایک کارنامہ ہے جس میں اس کے ساتھ دیگر دس کھلاڑی ایک ڈاکٹر اور ایک مالشیا بھی شامل تھا۔ کھلاڑی کھیلتے تھے، ڈاکٹر ان کی فٹنس کا ذمہ دار تھا جبکہ مالشیا ان کی مالش کرکے ان کی تھکن اتارتا تھا۔ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے کھلاڑیوں اور منیجر کو انعامات سے نوازا گیا انہیں نقد رقوم کے علاوہ اسلام آباد میں وزیراعظم نوازشریف نے بیش قیمت پلاٹ بھی دیئے، ممکن ہے ڈاکٹر صاحب کو بھی پلاٹ ملا ہو لیکن کہیں اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ کھلاڑیوں کی مالش کرکے انہیں کھیل کے لیے فٹ رکھنے والے مالشیے کو بھی انعام یا پلاٹ ملا ہو۔ میں اسے انسانی حقوق کی عظیم خلاف ورزی سمجھتا ہوں۔ ہماری ٹیم میں یہ مالشیا نہ ہوتا تو ہم کسی بھی صورت کرکٹ کا ورلڈ کپ تو بڑی بات ہے، چائے کا کپ بھی جیت کر نہ لاتے بلکہ بیشتر کھلاڑیوں کے مسل پل ہونے کے بعد یہ کپ جیتنے کا اعزاز انہی کے حصے میں آتا جنہوں نے یہ اعزاز ہماری جھولی میں ڈالا۔
کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان نے چند روز قبل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں اس کے طلبا سے خطاب کیا۔ یہ خطاب نہیں بلکہ ایک سیاسی تقریر تھی وہ بھی ایک ایسے اپوزیشن رہنما کی جو قومی اسمبلی میں جاکر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے سے گریزاں ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اس عظیم درس گاہ میں جاکر کوئی علمی بات کی ہوتی تو اس پر فخرکیا جاسکتا تھا لیکن انہوں نے لفظ بلفظ وہی کچھ کہا جو وہ اس سے چند روز قبل جنوبی پنجاب میں ایک جلسہ عام میں کہہ چکے تھے، وہاں انہوں نے جو کچھ کہا وہ اقتدار سے بے دخل کئے جانے کے بعد متعدد مرتبہ مختلف جلسوں میں کہہ چکے ہیں، ان کی تمام تقاریر کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں تو وہ چند نکات کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خلاف سازش کی گئی، ان کے مخالفین سب چور و ڈاکو ہیں جو ان کے مقابلے پر اکٹھے ہوگئے ہیں۔ وہ ملک و قوم کو ایسی آزادی دلوانا چاہتے ہیں جسے انہوں نے حقیقی آزادی کا نام دے رکھا ہے، لیکن اس حقیقی آزادی کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں جو عملی کوشش کی وہ نہیں چاہتے کہ اس پر کسی کی نظر پڑے، انہوںنے عظیم پاکستانیوں کے سر پر غیر ملکی شہریت کے حامل افراد کی ٹیم بٹھائی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان غیر ملکی شہریت رکھنے والے کے حوالے کیا۔ تمام سیاسی حکومتوں کے حاصل کردہ قرضوں سے کئی گنا قرض صرف ساڑھے تین برس میں لے کر ملک کو قرضوں کے شکنجے میں اس چابک دستی سے جکڑا کہ اب آزادی مشکل نظر آتی ہے۔ انہوںنے اپنے اختیارات کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے حق داروں کا حق چھین کر ایکسٹینشن دینے کا رواج ڈالا اور اس پر فخر کرتے رہے۔ انہوں نے صوبے میں اعلیٰ ترین عہدے پر تقرر کے لیے ایک نیا میرٹ ایجاد کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے انٹرویو کرنے بیٹھا تو ایک شخص نے یعنی ایک ممبر صوبائی اسمبلی نے آکر بتایا کہ اس کے آبائی گھر میں بجلی تک نہیں ہے۔ بس مجھے اس شخص کی یہی ادا پسند آئی کہ جو شخص اس زمانے میں بغیر بجلی کے زندگی بسر کررہا ہے اُس سے بہتر آدمی اس منصب کے لیے کوئی اور نہیں ہوسکتا، وہ اپنی تمام سیاسی زندگی میں قانون کی پاس داری اور قانون کی عمل داری کی بات کرتے رہے لیکن وقت آنے پر انہوں نے قانونی اور آئینی اداروںکی تضحیک کی وہ تواتر سے کہتے رہے کہ کسی سے معافی نہیں مانگوں گا۔ پھر ایک موقعہ ایسا آیا جب ان کے پائوں جلنے لگے تو انہوںنے وہ کچھ کیا جو روزاول پہلا موقعہ ملنے پر کرنا چاہیے تھا۔
گورنمنٹ کالج میں سیاسی تقریر کے پیچھے یہ خیال کارفرما نظر آتا ہے کہ جس طرح انہوں نے لالک جان چوک ڈیفنس لاہور اور لبرٹی چوک گلبرگ لاہور والوں کو اپنی گفتگو کے زور پر رام کیا ہے شاید اب ان کا آئندہ ہدف ملک بھر اور خصوصاً پنجاب کے تعلیمی ادارے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان نوجوانوں کو دل فریب گفتگو کے زور پر وہ لانگ مارچ میں سڑکوں پر لاکر اپنا ہدف حاصل کرسکتے ہیں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے زمانے میں ایوب خان کے خلاف کیا تھا لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ ان کے دامن میں وعدہ خلافیوں، اقربا پروری اور مشکل وقت کے دوستوں سے منہ موڑنے کے علاوہ ناکام حکومت اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہے جو انتخابات کے اعلان کے وقت قوم کے سامنے آئے گا۔
عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے ایچی سن کالج سے اپنی اس نئی انتخابی مہم کا آغاز کرتے انہوں نے ایسا نہیں کیا خدشہ تھا کہ طلبا ان سے زمانہ طالب علمی میں ان سے ان کی کارکردگی یا پوزیشنز کے بارے میں کوئی سوال نہ پوچھ لیں کیونکہ وہ کبھی بھی اپنی کسی جماعت میں تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے ٹاپ کے دس طالب علموں میں نہیں رہے۔ اس دور میں بھی انہوںنے کھیلا اور خوب کھیلا البتہ آج وہ مستقبل کے طالب علموں کو فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ
پڑھو گے لکھو گے توہوگے خراب
کھیلو گے کودو گے تو ہوگے نواب
وہ اس ضرب المثل پر عمل کرکے نوابی ٹھاٹھ حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم پاکستان بن گئے، مگر کیسے، یہ تفصیل ایک ادارے کے سربراہ لاہور میں چار سو افسروں سے خطاب میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ عمران خان اپنی قوت بازو پر زندگی کا سب سے اہم میچ کھیلنے کے لیے پریکٹس میچ پر میچ کھیل رہے ہیں، ان کی ٹیم پہلے کی نسبت بہت کمزور ہے، کچھ کھلاڑی اب کسی اور ٹیم کی طرف سے کھیلنے کا فیصلہ کرچکے ہیں جس کا انہیں ادراک نہیں۔ نام سامنے آنے پر وہ یقیناً کہیں گے کہ امریکہ اور نیوٹرل نے ان کے ساتھیوں کو ورغلایا ہے۔ خان آہستہ آہستہ کھیلتے ہوئے میچ کو آخری اوور تک لے جانا چاہتا ہے، آخری اوور تک جانے والا میچ اچھی خبر کم ہی لاتا ہے۔ اس مرتبہ ان کی ٹیم میں مالشیا بھی نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button