Editorial

وزیرخزانہ اسحق ڈار سے وابستہ توقعات

 

پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیٹر اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ حلف اٹھا لیاہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سینیٹر اسحاق ڈار سے حلف لیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے طویل ملاقات کی اور دونوں شخصیات نے ملکی معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے صدر مملکت کو اپنے پلان سے آگاہ کیا، سیلاب کی صورتحال میں معیشت کے مزید نقصان پر بھی گفتگو کی۔وزیراعظم شہباز شریف سے بھی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملاقات کی اور ملاقات میں ملکی معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ اسحاق ڈار ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ نومنتخب وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کو بہت بڑے اور مشکل چیلنجز کا سامنا ہے، معیشت کی بہتری کے لیے وقت دیں، ان شا اللہ ہم ان سے پوری طرح نمٹنے کی کوشش کریں گے۔ کسی کو پاکستان کی کرنسی سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہوگی، قیاس آرائیاں کرنے والوں اور ہنڈی والوں کو یہ چیز سمجھ نہیں آتی کہ جب ڈالر ایک روپیہ بڑھتا ہے تو پاکستان پر 110 ارب روپے کا قرضہ بڑھ جاتا ہے، ان شا اللہ ہر چیز کو سنبھال لیں گے جیسے ماضی میں کیا۔ گذشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے حلف اٹھایا اور گذشتہ روز بھی ڈالر کی قیمت میں کمی دیکھی گئی۔ انٹربینک میں ایک موقع پر ڈالر مزید 2 روپے 41 پیسے نیچے آکر 231 روپے 50 پیسے کا ہو ا جبکہ کاروباری روز کے اختتام پر امریکی ڈالر 77 پیسے کی کمی کے بعد 232 روپے 12 پیسے پر بند ہوا۔ دوسری طرف پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبارکا مثبت دن رہا اور 100 انڈیکس میں 366 پوائنٹس کا اضافہ ہوا، دیکھا جائے تو پچھلے چار دن میں ڈالر 8 روپے سے زیادہ سستا ہو چکا ہے اور قیمت کے فرق سے ہی پاکستان کے قرضوں کے بوجھ میں 1050 ارب روپے کی کمی واقع ہو چکی ہے۔مسلم لیگ نون کی قیادت نے وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار کو بے قابو مہنگائی، گرتی معیشت اور کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو کنٹرول کرنےکا مشکل ٹاسک دیا ہے اور وزیر خزانہ خود بھی پرعزم ہیں کہ وہ ان معاشی مسائل پر قابو پالیں گے لیکن اِس کے لیے وقت درکار ہوگا تاہم مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ جب درآمدی ادائیگیوں کا دبائو زیادہ ہو تو ڈالر کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے اور جب دبائو کم ہو تو ڈالر کی قیمت کچھ کم ہوجاتی ہے اسی طرح اگر کہیں سے معیشت کے لیے اچھی خبر آئے تو بھی ڈالر کی قیمت میں قیمت میں کمی دیکھی جاتی ہے کیونکہ اچھی خبروں کا براہ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے لیکن جب سیاسی یا معاشی عدم استحکام کی خبریں تواتر سے آتی رہیں تو نہ صرف سٹاک مارکیٹ پر پریشر آتا ہے
بلکہ ڈالر کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے، تاہم دیکھنا ہے کہ اسحق ڈار موجودہ معاشی صورت حال پر کس طرح قابو پاتے ہیں بلاشبہ ڈالر کی قیمت پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے درآمدی بل اور دیگر مدات میں قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے کیونکہ زرمبادلہ کی ایک ایک پائی بچانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے چند ماہ قبل لگژری اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کی مگر قریباً ایک ماہ بعد ہی پابندی اٹھالی گئی اور پابندی لگاتے وقت جو دلائل دیئے گئے تھے انہی کی نفی پابندی اٹھاتے وقت کی گئی حالانکہ موجودہ معاشی حالات میں انتہائی ناگزیر درآمدات کی ہی اجازت ہونی چاہیے تھی۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کو مہنگائی، ڈالر کی بڑھتی قیمت اور سیلاب متاثرین کی بحالی جيسے چیلنجز کا فوری سامنا ہے لیکن فقط مہنگائی اس وقت عام پاکستانیوں کے لیے سوہان روح بن چکی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی سے پٹرولیم مصنوعات اور دوسری چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہو گئی تو لازمی طور پر اس سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہو گی لیکن حالات یہی ظاہر کرتے ہیں کہ بجلی، پٹرول ، اشیائے خورونوش، اجناس چند سال پہلے والی قیمتوں پر قطعی دستیاب نہیں ہوں گے کیونکہ نہ تو پٹرول پر عوام کو سبسڈی ملنی ہے نہ ہی بجلی پر، گندم کی امدادی قیمتیں بھی بڑھائی جاچکی ہیں اور رہی سہی کسر عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھاکر پوری کردی گئی ہے اور اس کا جواز حکومت کی طرف سے لگژری ٹیکس کا انڈسٹریز پر نفاذ بتایا جارہا ہے، پھر جس معاشی صورت حال سے ہم دوچار ہیں اور عالمی معیشتیں بھی لڑ کھڑا رہی ہیں ایسے میں ریلیف کا متقاضی ہونا غلط فہمی سے بڑھ کر کچھ نہیں لگتا لیکن اسحق ڈار کی بطور وزیرخزانہ ماضی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ اطمینان بخش ہے اگرچہ دوسرا موقف بھی اپنی جگہ ہے لیکن ان کے سابقہ دور میں ایک پاکستانی کی فی کس اوسط آمدنی میں بھی اضافہ ہوا اور مجموعی معاشی صورت حال بھی بہتر تھی کیونکہ انہیں ملکی معیشت چلانے کا تجربہ ہے اور وہ عوام کی نبض کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں اور موجودہ حالات میں وزیرخزانہ کا موقف سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سا قطعی نہیں ہونا چاہیے جن کا واضح طور پر کہنا تھا کہ میں معیشت ٹھیک کرنے آیا ہوں مہنگائی کم کرنے نہیں۔ اگرچہ حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے مہنگائی پر تشویش کا اظہارکیا جارہا ہے اور بلاشبہ یہ تشویش صد فی صد درست ہے کیونکہ سابق وزیر خزانہ نے معیشت ٹھیک کرنے کے لیے سارا بوجھ عوام پر منتقل کیا لیکن عوام کو متبادل کوئی ریلیف نہیں دیا، اِس لیے اسحق ڈار کے لیے لازم ہوگا کہ وہ جہاں معیشت کی بہتری کے لیے ناگزیر اور فوری اقدامات کریں وہیں عام پاکستانیوں کے لیے ایسے عملی اقدامات بھی کریں جن سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو، مہنگائی کم ہو، آمدن میں اضافہ ہو، یوٹیلٹی بلز قہر ثابت نہ ہوں اور اجناس کی گرانی اور سفر زیست آسان معلوم ہو۔ ہم اسحق ڈار کی بطور وزیر خزانہ کامیابی کے لیے دعاگو ہیں لیکن چیلنجز اتنے بڑے اور مشکل ہیں جن پر قابو پانا محض دعویٰ اور خواب لگتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button