CM RizwanColumn

لازوال گائیک استاد امانت علی خان .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

کلاسیکی موسیقی میں سند کا درجہ رکھنے والے پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد امانت علی خان کی گزشتہ روز 48 ویں برسی منائی گئی۔ ان کو اس فانی دنیا سے گئے چار عشروں سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے مگر ان کے گائے گیت آج بھی مداحوں اور فن موسیقی سے شغف رکھنے والوں کے کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے ایک مرحوم دوست بھولے شاہ کی یاد بھی آتی ہے جو اکثر جب ہم دوستوں کی محفل ہوتی تھی تو وہ استاد امانت علی خان کی گائی ہوئی غزل’’ دل میں میٹھے میٹھے درد کے پھول کھلے۔ پھریادوں کی ہوا چلی پھر شام ہوئی۔‘‘گا کر سناتے تھے۔ استاد امانت علی خان کی برسی پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بھولے شاہ کی یاد کی ہوا بھی سرسراتی سنائی دے رہی ہے۔ بھارتی پنجاب کے علاقہ ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے استاد امانت علی خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی اور اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کر گانا شروع کیا۔ قیام پاکستان سے قبل انہوں نے اپنے باقاعدہ فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ خداداد صلاحیت اور والد کی تربیت کے باعث کم عمری ہی میں وہ کلاسیکل گیت، ٹھمری اورغزل نہایت مہارت سے گانے لگے تھے۔ شاید اسی وجہ سے غزل کو کلاسیکی موسیقی سے ہم آہنگ کرنے میں اس گھرانے کا کردار نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ واقفان حال اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں کہ جب کوئی گلوکار اونچی’’لے‘‘ میں گاتا ہے تو وہ اپنی آواز پہ کنٹرول کھو دیتا ہے لیکن قدرت نے استاد امانت علی خان کو یہ اعجاز بخشا تھا کہ وہ اپنی آواز پر مکمل کنٹرول رکھنے پہ قادر تھے۔
’’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے‘‘،’’موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘‘،’’مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے‘‘اور’’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘‘ جیسی غزلوں کی مقبولیت اور تحیر آمیز ساخت و ہئیت ان کی فنی مہارت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
علاوہ ازیں’’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘‘ اور’’اے وطن پیارے وطن‘‘ جیسے ملی نغموں نے بھی ان کی شہرت کو چار چاند لگائے۔ اسی طرح ابن انشا کی غزل’’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ جب انہوں نے گائی تو جو شہرت انہیں ملی اس کی دوسری مثال ڈھونڈنا آسان نہیں۔ استاد امانت علی خان کے فن کی پختگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی ان کے گیت لوگوں کو شدت جذبات سے مغلوب کر دیتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو کرمنٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہوئے۔ استاد امانت علی خان کا انتقال 52 سال کی عمرمیں17 اور 18 ستمبر کی درمیانی شب 1974کو ہوا۔ وہ لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
استاد امانت علی خان کے چاہنے والے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کی مدھر اور سریلی آواز سے متاثر ہو کر پریاں اور اپسرائیں اُن پر عاشق ہو جایا کرتی تھیں۔ خود استاد امانت کے بقول ان کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آئے جب انہیں محسوس ہوا کہ ان کے سامعین جنات اور پریاں ہیں۔ اپنے متعلق ایک پُراسرار واقعے کا حال ایک ریڈیو انٹرویو میں انہوں نے کچھ یوں سُنایا تھا کہ انڈین پنجاب کے شہر پٹیالہ میں وہ راج محل کے قریب شیرانولہ گیٹ میں واقع ایک حویلی میں رہائش پذیر تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ آٹھ یا نو برس کے ہوں گے۔ وہ بتاتے تھے کہ رات کا پچھلا پہر تھا اور وہ راگ مالکونس کا ریاض کرتے کرتے تھک کر سستانے لگے۔ ان کی اُنگلیاں تان پورے پر تھیں اور آنکھیں بند تھیں کہ اچانک ان کے کان میں اُس گانے کی ایک آواز آئی جو وہ پہلے سے گا رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ تب میں یہ سمجھا کہ چھوٹا بھائی فتح علی میرے ساتھ ریاض میں یہ سوچتے ہوئے شامل ہو گیا ہے کہ بڑا بھائی گا رہا ہے تو میں بھی اس کا ساتھ دوں۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ فتح علی آج بہت عمدہ گا رہا ہے۔ میں آنکھیں بند کر کے راگ کے سُروں کو چھیڑ رہا تھا کہ اچانک وہ غیبی آواز گندھار (گا) سے نیچے تان لے کر اُتری۔ وہ تان اس قدر تیز طراز اور خوبصورت تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے مجھ پر جادو چل گیا ہو۔ واہ، واہ، واہ کر کے میں اٹھا تو دیکھا کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ تب میں چونکہ بچہ تھا اس لیے بہت ڈر گیا، میں وہاں سے چیختے ہوئے بھاگا اور ابا کے کمرے میں آیا اور انہیں جلدی سے یہ ماجرا سُنایا۔ وہ مجھے لے کر وہیں ریاض والے کمرے میں واپس پہنچے اور مجھے تسلی دی کہ میں اسی طرح گاتا رہوں، مجھے کچھ نہیں ہو گا. میں بہت ڈرا ہوا تھا مگر والد صاحب کی موجودگی میں، میں نے اسی طرح مالکونس راگ دوبارہ گانا شروع کیا لیکن وہ آواز دوبارہ نہ آئی اور پھر ساری زندگی نہ آئی۔‘‘
استاد امانت کے چھوٹے بھائی استاد حامد علی خان کا اس نوعیت کی ممکنات کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ممکن ہے وہ ہمارے دادا استاد علی بخش جرنیل خان کی روح ہو جنہیں وائسرائے ہند سر لارڈ جیمز بروس نے ان کے جوڑی دار استاد فتح علی خان کے ہمراہ دونوں کو جرنیل کا اعزازی عہدہ دے دیا تھا۔ استاد حامد علی خان بتاتے ہیں کہ استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان مہاراجہ پٹیالہ کے محل میں باقاعدگی سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، انہیں دربار سے ہر ماہ وظیفے کے ساتھ دیگر مراعات بھی مل رہی تھیں لیکن قیام پاکستان کے وقت وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ یہاں بھی ان کے خاندان نے فن موسیقی کی خدمت جاری رکھی۔ استاد امانت علی اور فتح علی کی جوڑی کو 1969 میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ اس جوڑی کے بعد ان دونوں کے بیٹوں استاد حامد علی خان، اسد امانت علی خان اور شفقت امانت علی خان کو بھی یہ اعزاز دیا گیا۔ یوں پٹیالہ گھرانے کو پانچ پرائیڈ آف پرفارمنس اعزازات کا حامل ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب انڈیا میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ پٹیالہ گھرانہ پاکستان چھوڑ کر انڈیا آ رہا ہے۔ اس حوالے سے استاد حامد علی خان کا کہنا تھاکہ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے بزرگ پٹیالہ میں رہتے تھے لیکن جب پاکستان بن گیا تو یہ ہمارا وطن ہوا۔واقعی درست ہے کہ استاد امانت علی خان، فتح علی خان کو بھی کہا گیا تھا کہ وہ انڈیا آ جائیں اور اپنی ساری جاگیریں واپس لے لیں لیکن وہ نہیں گئے اور دونوں اسی مٹی میں دفن ہوئے۔ استاد حامد علی خان اس حوالے سے مزید بتاتے ہیں کہ بعد ازاں مجھے اور اسد امانت علی کو بھی اندرا گاندھی اور واجپائی نے علیحدہ علیحدہ محافل میں سُنا۔ واجپائی نے ہم دونوں کو پیشکش کی کہ ہم پٹیالہ واپس آ جائیں تو ہمیں ہماری ساری جاگیریں واپس دینے کے ساتھ اور بھی مراعات دی جائیں گی۔ یہ خبر انڈیا میں شائع کر دی گئی تو ہر طرف شور مچ گیا۔ اس پر استاد ناظم خاں سارنگی نواز جو ہمارے ساتھ انڈیا کے دورے پر تھے انہوں نے بڑے بھائی استاد فتح علی کو ٹیلی گرام دے دی کہ انڈیا میں شور مچ گیا ہے کہ پیٹالہ گھرانہ پاکستان چھوڑ کر دوبارہ انڈیا واپس آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ استاد فتح علی نے یہ سُنا تو ہم پر بڑے سیخ پا ہوئے، تب ہم نے انہیں ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا آپ کی طرح ہمیں بھی پیشکش ہوئی ہے لیکن ہم واپس پاکستان آ رہے ہیں۔ استاد حامد علی خان نے کہا کہ ‘میرا جوڑی دار اسد امانت علی خان اب دنیا سے چلا گیا ہے، ہم نے بھی جانا ہے لیکن ہماری قبریں بھی اسی دھرتی میں بنیں گی جس کا نام پاکستان ہے اور یہ نام رگوں میں جاری خون کے ساتھ رچا بسا ہوا ہے۔
استاد امانت علی خان جب دنیا سے گئے تو ان کا نام شہرت کے ساتویں آسمان پر چمک رہا تھا۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کی گائی یہ غزل’’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ اس وقت کی سب سے مقبول میوزک آئیٹم کے طور پر سُنی جا رہی تھی۔ اسی مصرعے کے مصداق وہ صرف 52 سال کی عمر میں بھی اس شہر میں’’جی نہ لگا‘‘ سکے اور اپنڈکس کا آپریشن بروقت نہ ہونے کی بناء پر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک استاد امانت علی خان کے بعد ان کے بیٹے اسد امانت اور چھوٹے بھائی استاد فتح علی خان بھی اب انتقال کر چکے ہیں۔ لیکن اس گھرانے کے انداز اور روایت کو استاد حامد، شفقت امانت، رستم فتح، ولی، انعام اور نایاب حامد علی سمیت دیگر فنکار آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ان کے مداح آج بھی بہت زیادہ ہیں اور وہ جدید اور قدیم موسیقی کے علوم سے آشنا ہونے کی بناء پر منفرد موسیقی پیش کر کے اپنے آباؤاجداد کا نام اور کام آگے بڑھا رہے ہیں۔ استاد امانت علی خان جیسے لازوال گائیک کی یہ اگلی نسل بھی شائقین موسیقی اور حکومت پاکستان کی توجہ کی اتنی ہی مستحق ہے جتنا کہ ان کے بڑے بزرگ تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button