ColumnZameer Afaqi

پینا ڈول کی مارکیٹ میں قلت کے اسباب ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

لوگوں کو سمجھ آجانی چاہیے کہ حکومت کسی کی بھی ہو اس کا تعلق نہ ہی عوام سے ہو تا ہے اور نہ وہ عوامی مسائل کو حل کرنے آتے ہیں، پانچ دس کروڑ روپے خرچ کرکے پارلیمنٹ میں جانے والے عوامی مسائل حل کرنے نہیں جاتے بلکہ اپنی اور اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے جاتے ہیں۔اگر یہ عوام کے نمائندے ہوتے تو انہیں عوام میں جانے سے گھبراہٹ کی بجائے بے دھڑک جانا چاہیے لیکن دیکھا گیا ہے کہ ایک ایم پی اے، ایم این اے بھی درجنوں گارڈ اپنی حفاظت کے لیے رکھتا ہے اسی طرح وزرا ،وزراعلیٰ اور وزیر اعظم ہیں جن کا پروٹو کول ہی عوام کے لیے سوہان روح بنا ہوتا ہے، یہ عوام سے دور رہتے ہیں تاکہ کوئی انہیں تھپڑو تھپڑی نہ کر دے اسی لیے آہنی حصار میں قید یہ خوف کے غلام ہیں۔
ویسے تو ملک خداد داد ہمیشہ ہی بحرانوں کا شکار رہتا ہے لیکن جب کوئی وبا ،یا قدرتی آفت آجائے تو یہ وقت بھی عوام پر ہی بھاری گزرتا ہے، ایک طرف انہیں ضروریات زندگی کے لالے پڑتے ہیں تو دوسری طرف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور طرفہ تماشا دیکھیے مارکیٹ سے ادویات غائب ہوجاتی ہیں۔ کرونا کے دنوں میں ہم نے بہت خوفناک منظر دیکھے کہ کس طرح ایک ایک روپے کی گولی دس بیس روپے تک ،پانچ روپے والا ماسک پچاس روپے تک بکا ،یہاں تک کہ پینا ڈول جیسی عام گولی جس کی کبھی قلت نہیں ہوئی تھی، وہ مارکیٹ سے غائب بھی ہوئی اور اس کی قیمت بھی بڑھادی گئی۔
اب پھر ایک عظیم آفت کا سامنا ہے اور پینا ڈول ، پیرا سٹا مول اور سیرپ مارکیٹ میں دستیا ب ہی نہیں ۔ پہلے تو پچیس تیس روپے میں پیناڈال کا پتا کہیں نہ کہیں سے مل جاتا تھا اب تو وہ غائب ہو چکا ہے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ضمن میں بھی حکومتی محکمے عوام سے لاتعلق بن چکے ہیں۔ سیلاب متاثرین میں بیماریاں پھیل رہی ہیں، ملیریااور ڈینگی وبا کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں لیکن مارکیٹ میں ادویات ہی نہیں ہیں۔
پاکستان میں پیراسیٹامول فیملی میں سے گلیکسو سمتھ کلائن (جی ایس کے) کمپنی پیناڈول گولیاں اور سیرپ بناتی ہے، چھوٹے بڑے شہروں میں پیناڈول دیگر ضروری اشیا کی طرح قریباً ہر گھر میں موجود ہوتی ہے۔سر درد، بخار، گلے میں خراش سے لے کر جسم میں درد کے لیے پہلا علاج اسی کو ہی مانا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے پیراسیٹامول بشمول پیناڈول کو ضروری ادویات کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق پیراسٹامول بنیادی طور پر درد سے چھٹکارے اور انفیکشن کے علاج کی گولی ہے، جب بھی کس کو بخار ہو رہا ہو یا کسی قسم کا درد ہو رہا ہو، پٹھوں میں درد ہو تو اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
جو حکومت مشکل وقت میں اپنی عوام کے ساتھ کھڑی نہ ہو ،اسے حکومت کرنے کا کیا حق ہے اور جو حکومت پینا ڈول جیسی گولی کی قلت پر پریشان نہ ہو کیا وہ حکومت کرنے کی اہل ہے ؟ اس طرح کے سوال عوام کو اٹھانے چاہئیں بلکہ انہیں تو ٹاپ ٹرینڈ ہونا چاہیے لیکن ہمارے ٹی وی چینلز کے جغادری اینکرز شاید بیمار نہیں ہوتے اور ان کے ارد گرد کوئی ان کا عزیز و قارب بھی بیمار نہیں ہوتا بے حسی کی حد ہے یا ڈھٹائی ہے؟ ۔ہم نے پینا ڈول جسے لوگ خوارک سمجھ کر بھی کھاتے ہیں، کی قلت بارے جانکاری کی کوشش کی تو پتا چلا کہ حکومت اور دوا ساز کمپنیوں میں اس کی قیمت بڑھانے کی وجہ سے ڈیڈ لاک ہے جس کی وجہ سے ان کمپنیوں نے اس کی پروڈکشن روک رکھی ہے، سوال یہ ہے کہ حکومتی محکمے جانتے نہیں کہ پینا ڈول کی قلت سے کس قدر شدید بحران جنم لے رہا ہے ،کیا یہ اس کی زمہ داری نہیں کہ وہ دوا ساز اداروں کو پابند کرے کہ وہ اس کی پروڈکشن نہ روکے یہ انسانی جان کا معاملہ ہے۔
پروڈکشن اداروں کا کہنا ہے کہ خام مال پر حکومتی ٹیکسوں کی بھر مار نے ہمیں دیوار کے ساتھ لگا رکھا ہے اس لیے وہ دو روپے کی گولی نہیں بیچ سکتے، ہمیں اس کی قیمت بڑھانے کی اجازت دی جائے اور شنید ہے کہ میاں شہبازشریف وزیر اعظم پاکستان نے عوام کے سامنے ہیرو بننے کے چکر میں ادویہ ساز کمپنیوں کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے، یوں ہو سکتا ہے کہ یہ بحران اور شدت اختیار کر جائے۔ سوال یہ ہے کہ بجلی اور پٹرول کی قیمت بڑھاتے وقت کیا انہیں عوام سے ذرا ہمدردی نہیں ہوتی جس کی بنا پر خود کشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
چند مہینے پہلے تک پینا ڈول کی دس گولیوں کا پتا17 روپے کا تھا، وہ بھی بمشکل مل رہا تھا اور اب تیس چالیس روپے کا پتا وہ بھی جنہوں نے ’’اوکھے ویلے‘‘ کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا ہے، فروخت کرتے پائے گئے ہیں لیکن جب سے سیلاب نے انسانوں کی مشکل میں اضافہ کیا اور بیماریاں وبا کی شکل اختیار کر رہی ہیں اب تو پینا ڈول ،پیرا سٹا مول اور کھانسی کے سیرپ ہی مارکیٹ سے غائب ہیں۔ اس کے ساتھ ہی موسپل ،مچھر دانی اور مچھر مار سپرے کی قیمتیں بھی دل جلانے کے لیے کافی ہیں۔
پینا ڈول کی قلت کسی ایک شہر تک ہی محدود نہیں، پاکستان کے ہر شہر کا یہی حال ہے ۔پاکستان میں پیناڈول کی قلت نئی بات نہیں۔ اس سے قبل گذشتہ سال نومبر میں بھی اس کی قلت سامنے آئی تھی جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ کی مداخلت کے بعد ہی دستیابی یقینی بنائی جا سکی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر سے ملک میں پیناڈول کی قلت کی خبریں سامنے آنے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ملک میں پیناڈول کی دوبارہ قلت کی اصل وجوہات کیا ہیں اور یہ کب تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
حکومت کے مطابق پاکستان میں پیراسیٹامول کے خام مال کی آمد میں کمی اس قلت کی ایک اہم وجہ بتائی جا رہی ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اصل مسئلہ اس کی قیمت کا تعین اور ’انڈیا جیسے ’’ازلی‘‘ دشمن سے خام مال منگوایا نہیں جا سکتا اور پاکستان میں ذخیرہ کرنے کی سہولت موجود نہیں اور نہ ہی حکومت ان ضروری ادویات کا خام مال رکھتی ہے تاکہ ہنگامی صورتحال میں اس کا استعمال کیا جا سکے۔پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کا کہنا ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر ادویات کی درآمدات چین سے ہوتی ہیں اور چین میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آدھی سے زیادہ انڈسٹریز بندش کا شکار ہیں جس کے باعث خام مال کی قیمتوں میں دُگنا اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ دوا تیار نہیں کی جا رہی ،ان کے مطابق پیناڈول کے ساتھ آئی بی پروفن کی بھی قلت کا سامنا ہے۔
میڈیسن کے شعبے سے جڑے حضرات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ قلت میں مزید شدت آنے کا امکان ہے۔انٹرنیشنل مارکیٹ میں اگر خام مال کی دستیابی نہیں ہوتی، کووڈ کی کوئی نئی لہر کے ساتھ سیلاب بھی ایک مشکل وقت لے کر آیا ہے ۔ادھر سردیوں کے بعد ڈینگی میں اضافے کا امکان ہے اس صورتحال میں کھپت بڑہے گی اور قلت شدید ہو گی۔پاکستان میں ادویات کے شعبے سے منسلک کئی افراد نے تصدیق کی ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں پیناڈول کی قلت بھی ہے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پیناڈول کی 100گولیوں کا ایک پیکٹ 350 روپے میں ملتا تھا، پھر اس کی قیمت 500 روپے ہوئی جو بڑھ کر 700 روپے ہو گی اور اب یہ ہزار روپے میں بھی دستیاب ہی نہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے بعد ڈینگی بخار کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور وہاں سے اس کی طلب زیادہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت53 مزید کسی بڑے المیے کے جنم لینے سے پہلے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر اس کا حل نکالے کچھ عرصہ تک پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کو نہ بڑھایا جائے ، جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں کو کم اسی صورت رکھا جاسکتا ہے جب خام مال پر ٹیکسوں میں کمی ہو گی ورنہ ان کی قیمتیں بڑھائے بنا کوئی چارہ نہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button