ColumnImtiaz Ahmad Shad

جلد بازی کا انجام .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

انسان جلد باز مخلوق ہے، میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو(سورۃ الانبیاء )۔اس آیت سے معلوم ہو اکہ جلد بازی ایسی بری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اپنی ہلاکت و بربادی اور عبرتناک موت تک کا مطالبہ کر بیٹھتا ہے اور یہ جلد بازی کا ہی نتیجہ ہے کہ انسان اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھ بیٹھتا ہے اور وہ کوئی عملی قدم اٹھانے سے پہلے ا س کے اچھے اوربرے پہلوئوں پر غور نہیں کر پاتا اوریوں اکثر وہ اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مستقل مزاج اور سکون و اطمینان سے کام کرنے والاآدمی اپنے مقصد کو پا لیتا ہے اور نقصان سے بھی بچ جاتا ہے۔کسی کی جلد بازی تقدیر کو وقت سے پہلے رونما نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی کی چاہت اسے مقدم کر سکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: یقیناً اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔مذموم جلد بازی وہ ہے جس میں اطاعت نہ ہو اور یہ شیطان کا بنی نوعِ آدم کے خلاف ہتھیار ہے، جلد بازی کے نتائج نقصان اور پشیمانی کی صورت میں نکلتے ہیں۔ انس بن مالکؓ، نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: طبیعت میں ٹھہراؤ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، جبکہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔اسی طرح عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ انسان نے ہمیشہ جلد بازی کا پھل ندامت ہی پایا۔انسان کیلئے جلد بازی کی خطرناک ترین صورت یہ ہے کہ انسان خود کو عقل کل تصور کرتے ہوئے سوچے سمجھے بغیر فوری فیصلے کرتا ہے اور ہر معاملے میں سخت ردعمل دیتا ہے ۔مذموم جلد بازی دل کا سکون و چین سلب کر لیتی ہے،یہی وجہ ہے کہ پریشان، گرم مزاج اور جلد باز انسان اپنی ذمہ داری اچھی طرح ادا نہیں کرتا یا کوئی کام سر انجام دے تو قابل اعتبار و اعتماد نہیں ہوتا۔مذموم جلد بازی میں یہ عنصر بھی شامل ہو جاتاہے کہ انسان افواہیں پھیلاتے چلا جاتا ہے اور تصدیق کیے بغیر تہمت لگانا اس کی عادت بن جاتی ہے۔اس کے کان میں جو بات بھی پہنچے وہ تصدیق کئے بغیر جلد بازی میں نشر کر دیتا ہے جس کی بعد میں اسے وضاحتیں دینا پڑتیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :جب تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی۔زبان بلا سوچے سمجھے بات لیکر الزام تراشی کر دیتی ہے، کان بھی چلتی پھرتی باتوں کو لا شعوری طور پر سن لیتے ہیں، پھر یہ باتیں اس سے پہلے کہ دل انہیں سمجھ لے ،بغیر غور و فکر کے پھیل جاتی ہیںاور جب قانون اور شریعت کے ترازوں میں انہیں تولا جاتا ہے تواندازہ ہوتا ہے کہ کتنی بھیانک غلطی سر زد ہو گئی۔بے لگام ، بھر پور جو ش و جذبہ مذموم جلد بازی کی شکل ہے جو کہ کسی بھی ریاست کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہے، اسامہ بن زید ؓکہتے ہیں:ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حُرقہ جگہ پر بھیجا تو ہم نے ان پر صبح سویرے دھاوا بول کر شکست دے دی، اس کے بعد میں اور ایک انصاری شخص ایک جنگجو کے پیچھے لگ گئے جب ہم نے اسے دبوچ لیا تو اس نے’’لاالاالله ‘‘پڑھ لیا، اس پر انصاری شخص نے اپنا وار روک لیا لیکن میں نے اسے نیزے کے وار سے قتل کر دیا، پھر جب ہم واپس پہنچے اور نبیﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسامہ کیا تم نے اس کے لاالاالله پڑھنے کے بعد بھی قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا :اس نے بچاؤ کیلئے لاالاالله پڑھا تھا،تو آپﷺ بار بار وہی جملہ دہراتے رہے اور مجھے اتنی سخت شرمندگی ہوئی کہ میں اس دن سے پہلے مسلمان نہ ہونے کی تمنا کرنے لگا۔بخاری و مسلم۔
ریاستی اہم امور کے حوالے سے غلط حکم لگانا اور حکم لگانے میں جلد بازی کرنا بھی مذموم ہے، خصوصاً بڑے اور اہم مسائل میں، کیونکہ اہم مسائل میں جلد بازی سے کام لیناقوم کی بے قدری کا باعث ہے، بعض اوقات جلد بازی میں بولے جانے والے جملے ریاست اور قوم دونوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔غصہ ،جذبات اور جلد بازی کی وجہ سے انسان ہمیشہ طیش میں آ جاتا ہے، اور غیر مناسب اقدام کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں اپنی جان، معاشرے اور پوری قوم کو نقصان پہنچا بیٹھتا ہے۔ابن العربی لکھتے ہیں کہ:جلد بازی جس شخص کا وتیرہ ہو تو اسے شکوک و شبہات اپنے شکنجے میں دبوچ لیتے ہیں نیزاسے
دوسروں کی عیب جوئی اور غلطیاں تلاش کرنے کی بیماری پڑ جاتی ہے۔لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے ہوئے جلد بازی لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے اور ان کے حقوق تلف کرنے کا باعث ہے۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں: مجھے رسول اللہﷺ یمن کی جانب قاضی بنا کر بھیجنے لگے تو میں نے عرض کیا:اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نو عمر ہوں فیصلے کرنے کی مجھ میں سکت نہیں ،تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری ضرور رہنمائی فرمائے گا اور تمہاری بات میں وزن پیدا کرے گا، جب تمہارے سامنے فریقین فیصلے کیلئے آئیں تو اس وقت تک فیصلہ نہ کرنا جب تک دونوں کی یکساں طور پر بات نہ سن لو، اس طرح تمہارے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں: میں اس وقت سے فیصلے کر رہا ہوںیا اس دن کے بعد فیصلہ کرتے ہوئے مجھے کبھی تردد نہیں ہوا۔ابو دائود۔ وطن عزیز کا ہر فردبڑی جلدی میں نظر آرہا ہے۔ خاص طور پر سیاست کا میدان بڑا گرم ہے۔عوامی سطح پر بڑے بڑے بول بولے جارہے ہیں۔ہر شخص دوسرے کو مات دینے بلکہ مٹانے کیلئے وہ تمام حدیں پھلانگنے سے بھی باز نہیں آرہا جو کسی بھی ریاست میں عرف عام میں ریڈ لائن کہلاتیں ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم منقسم ہو چکی، ریاستی اداروں پر سوالیہ نشان اور انتظامی ادارے بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست کے میدان سے لے کرصحافت کے میدان تک ،نظام ریاست چلانے والوں سے لے کر انصاف کے ضامنوں تک سب کے سب جلد بازی کا شکار ہو چکے، ٹھہرائو کہیں بھی نہیں۔غصہ اس قدر کہ ہر شخص منہ سے جھاگ کے ساتھ آگ نکالے ،سرخ آنکھیں کئے دکھاتا نظر آرہا ہے۔ایسے میں اہل علم و دانش کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گااور قرآن پاک کی اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے: انسان جلد باز مخلوق ہے میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو۔(سورۃ الانبیاء )۔ غصہ ،جذبات اور جلد بازی کا شکار افراد کی رہنمائی کرنا ہو گی جو ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔یاد رکھیں ریاست اور ریاستی معاملات جوش سے نہیں ہوش سے چلا کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button