Editorial

عسکری قیادت کیخلاف غیر ضروری بیانات

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کے مطابق پاکستان آرمی فیصل آباد میں ایک سیاسی جلسے کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے پاک فوج کی سینئر قیادت کے بارے میں توہین آمیز اور غیر ضروری بیان پر برہم ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو ایسے وقت میں بدنام اور کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب یہ ادارہ آئے روز پاکستانی عوام کی سلامتی اور تحفظ کے لیے جانیں دے رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کی تقرری جس کے لئے آئین میں طریقہ کار اچھی طرح بیان کیا گیا ہے، کو متنازعہ بنانے والے سینئر سیاستدان کا یہ عمل انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن ہے۔ فوج کی اعلیٰ قیادت نے اپنی حب الوطنی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرنے کے لیے دہائیوں پر محیط شاندار خدمات انجام دیں۔ پاک فوج کی سینئر قیادت پر سیاست کرنا اور آرمی چیف کے انتخاب کے عمل کو سکینڈلائز کرنا نہ تو ریاست پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ادارے کے مفاد میں ہے۔ پاک فوج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی پاسداری کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے بیان پر صرف پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر نے ہی نہیں بلکہ حکمران جماعتوں اور پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے بلکہ صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ آرمی چیف سمیت پوری فوج محب وطن ہے، عمران خان اپنی بات کی خود وضاحت کریں۔ کسی کی حب الوطنی پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ عمران خان نے آرمی چیف کے حوالے سے جو بات کی وہ خود وضاحت کریں، میں کوئی کنفیوژن پیدا نہیں کرنا چاہتا، جو بھی بات کرے درکار ہے کہ وہ خود ہی اس کی وضاحت بھی کرے۔ گذشتہ روز پوری پاکستانی قوم روایتی دشمن اور خود سے ہر لحاظ سے بڑی طاقت بھارت کو دندان شکن شکست دینے پر بھرپور ملی جوش و جذبے کے ساتھ یوم دفاع منارہی تھی اور قومی ذرائع ابلاغ پاک فوج کے شہدا اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے۔ شہدا کے مزارات پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جارہی تھیں کہ قوم اُن کی بامقصد قربانیوںکو کبھی نہیں بھول سکتی۔ امسال طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ملک گیر سطح پر ہونے والے ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات کی وجہ سے پاک فوج نے یوم دفاع کی مرکزی تقریب منسوخ کردی تھی تاہم مزار قائد اورمزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقاریب منعقد ہوئیں۔ بات کرنے کا مقصد ہے کہ ایک طرف ہم یوم دفاع مناتے ہوئے شہدا اور غازیوں کو یاد کررہے تھے تو دوسری طرف پاک فوج کی جانب سے پاک فوج کی سینئر قیادت کے
بارے میں توہین آمیز اور غیر ضروری بیان پر برہمی کا اظہار زیر نظر تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اِس معاملے پر جو بھی وضاحت دیتے ہیں اُس سے قطع نظر ہم عرض کرنے پر مجبور ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت کا ہمیشہ سے ہی وتیرا رہا ہے کہ جب اقتدار میں ہوں تو فوج کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اقتدار سے باہر آتے ہی اُن کا موقف یکسر بدل جاتا ہے جو قطعی مناسب نہیں یہی نہیں بلکہ اقتدار سے باہر بعض سیاسی پارٹیاں حزب اقتدار پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے پاک فوج کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کا پراپیگنڈا بھی کرتی ہیں جس کے نتیجے میں غیر جانبدار اور پیشہ ور ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور پھر برداشت سے باہر صورت حال ہونے پر ترجمان پاک فوج کو کہنا پڑتا ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں،لیکن آفرین ہے کہ سیاسی رہنما اپنی روش برقرار رکھتے ہیں جو قطعی مناسب نہیں۔ بلکہ یہ افسوس ناک سلسلہ قریباً دو دہائیوں سے جاری ہے اور عوامی جلسوں میں ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو قطعی طورپر نہیں کہی جانی چاہئیں اورجب پاک فوج کی جانب سے اظہار لاتعلقی اور غیر جانبداری کا اظہار کیا جائے تو سیاست دان ایک دوسرے کو پھنسانے والے بیانات دیتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کرتےہیں کہ جیسے اُن کا اپنا دامن صاف ہے اور انہوں نے خود کبھی ایسے بیانات نہیں دیئے ۔دیکھا جائے تو ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور استحکام میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشیں قابل تحسین اور ان کا ملکی اداروں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار رہاہے۔ اسی طرح عصر حاضر کے داخلی اور خارجی چیلنجز کا محدود وسائل میں رہ کر بھرپور مقابلہ کرنا اور قومی مفادات کا دفاع کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا بھی اُن کے حصے میںجاتاہے کہ انہوں نے پاک فوج کو دنیا کی بہترین فوج بنانے کے لیے اپنی کاوشیں ہمیشہ جاری رکھی ہیں پھر جمہوریت کے استحکام سے لیکر ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے تک کوئی بھی موقعہ ایسا نہیں جب سپہ سالار نے سیاسی قیادت کو بحران سے نکلنے میں مدد نہ دی ہو۔ جنرل قمر جاوید باجوہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں اور ایک سے زائد بار کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے، ملک کو آگے لے جانے کے لیے میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور صرف نوجوان ہی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو ملک و قوم پر ایک بڑا احسان کرنا چاہیے، وہ یہ کہ پاک فوج اور عدلیہ سمیت ریاست کے کسی بھی ستون کو اپنے بیانات کے ذریعے متنازعہ بنانے کی بجائے اُنہیں آئین و قانون کی روشنی میں اپنا کام کرنے دیا جائے کیونکہ معاملات تبھی بگڑتے ہیں جب ہم معاملات کو بگاڑنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ جب قومی سلامتی کے محافظ اور ریاست کے اہم ادارے ہی متنازعہ بنادیئے جائیں گے تو پھر کون اُن پر اعتماد کرے گا۔ کسی ایک سیاسی رہنما کی بجائے ہم پوری سیاسی قیادت سے درخواست گزار ہیں
کہ سیاسی فوائد کے حصول کے لیے ریاستی اداروں کو اپنی سیاست سے دور رکھا جائے کیونکہ اسی میں ملک و قوم کی سلامتی اور بہتری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button