لبنان میں پیجر، واکی ٹاکی دھماکے
تحریر : محمد ناصر شریف
پیجر گزشتہ صدی میں دنیا بھر میں پیغام رسانی کے لئے استعمال ہونے والی معروف ڈیوائس تھی،20ویں صدی میں 50اور 60 کی دہائی میں ایجاد ہونے والی اس ڈیوائس کو 80اور 90کی دہائی میں عروج ملا۔یہ تاروں کے بغیر برقیاتی لہروں کے ذریعے پیغام پہنچانے والی ڈیوائس ہے جس کے ذریعے تحریری اور صوتی پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔دنیا میں پہلی پیجر ڈیوائس 1949میں امریکہ میں الفریڈ گروس نے ایجاد کی تھی۔1959میں آفیشل طور پر موٹرولا نے اس ڈیوائس کا نام پیجر رکھا۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 1994میں 6کروڑ سے زائد پیجرز استعمال ہونے لگے۔ پیجر ایک چھوٹی، پورٹیبل الیکٹرانک ڈیوائس ہے جسے بیپر بھی کہا جاتا ہے یعنی کسی بھی واقعے سے متعلق معلومات فراہم کرنا اور بنیادی طور پر پیجر بھی مختصر پیغام یا انتباہ بھیجنے اور وصول کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ زیادہ تر پیجرز بیس اسٹیشن یا سینٹرل ڈسپیچ سے ریڈیو فریکوئنسی کے ذریعے پیغامات وصول کرتے ہیں، یہ پیغامات نمبرز یا ٹیکس کی شکل میں ہوتے ہیں جو سامنے والے کو کسی بھی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ پیغام رسانی کے لئے ضروری ہے کہ دونوں طرف پیجرز موجود ہوں جو آج کے دور میں بہت کم استعمال ہوتے ہیں، دراصل یہ ٹیکسٹ میسج کی ایک ابتدائی شکل ہے جس میں پیغام وصول کرنے والا اسی پیجر کے ذریعے مختصر جواب دے سکتا ہے۔ پیجرز رکھنے والے صارف کو موبائل فون کی طرح ایک بیپ یا وائبریشن سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ اس کے پاس کوئی پیغام آیا ہے۔1990کی دہائی کے آخر اور 2000کی دہائی کے اوائل میں پیجرز کا استعمال بہت زیادہ تھا لیکن جیسے جیسے موبائل فون عام ہوتے گئے ویسے ہی پیجرز کا استعمال بھی کم ہونے لگا اور آج کے جدید دور میں نئی نسل اس ڈیوائس سے بہت کم واقفیت رکھتی ہے۔ رواں صدی میں سمارٹ فونز کی آمد نے تو پیجر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ پیجرز خاص طور پر ایسے شعبوں میں استعمال ہوتے تھے جس میں فوری اور قابل اعتماد مواصلات کی ضرورت ہوتی تھی، پیجرز عام طور پر ڈاکٹروں، نرسوں اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے اداروں کی جانب سے استعمال کئے جاتے تھے کیوں کہ ان ڈیوائسز کا کسی پر انحصار نہیں ہوتا تھا جو بعض حالات میں قابل رسائی نہیں ہوتے۔ لیکن اب بھی اسے اکثر ممالک میں ایمرجنسی سروس اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار استعمال کر رہے ہیں کیونکہ جدید پیجر موبائل فونز کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کئے جاتے ہیں۔
گزشتہ روز اسرائیل نے حزب اللہ پر سائبر پلس حملے کئے ، لبنان میں منگل اور بد ھ کے روز پیجرز، واکی ٹاکی،اسمارٹ فونز ، لیپ ٹاپ ، ریڈیو ڈیوائسز اور سولر پینلز میں نصب بارودی مواد کے ذریعے سے ہزاروں دھماکوں کے نتیجے میں 32افراد شہید اور 3250زخمی ہوگئے، سیکڑوں زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے ،بیک وقت بیروت، جنوبی اور مشرقی لبنان سمیت مختلف شہروں میں دھماکوں کی گونج ،مختلف مقامات پر آگ لگ گئی،اسپتال زخمیوں سے بھر گئے ، سب سے زیادہ دھماکے دارالحکومت بیروت میں ہوئے جہاں 1850افراد زخمی ہوئے ، شہداء میں لبنانی وزیر کا بیٹا بھی شامل ہے جبکہ زخمیوں میں حزب اللہ کے متعدد ارکان کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں شہری اور ایرانی سفیر بھی شامل ہیں۔حملوں کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان مکمل جنگ کا خدشہ اور خطے میں جاری کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے، اسرائیل نے لبنان کے ساتھ سرحد پر اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔ لبنانی سکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ حملے ’’ بوبی ٹریپ‘‘ کے ذریعے سے کئے گئے ، ڈیوائسز میں بیٹری سے منسلک دھماکہ خیز مواد کو تباہ کرنے کیلئے پہلے سے ہی ایسا پروگرام نصب تھا۔ اسرائیل کے جاسوس اداری موساد نے اطلاعات کے مطابق حالیہ مہینوں میں درآمد کئے گئے پیجرز کی مدد سے ان پانچ ہزار افراد کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی جن کے زیر استعمال یہ پیجرز تھے۔ اسرائیل نے پانچ ہزار پیجرز کی بنیاد پر متعلقہ پیجرز صارفین کو نشانہ بنایا اور ڈیٹونیٹر سے دھماکے کئے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کی طرف سے نشانہ بنائے گئے ہزاروں پیجرز حال ہی میں درآمد کئے تھے تاکہ موبائل فون سے جڑے ان ممکنہ خطرات سے بچا جا سکے جن سے اسرائیلی فوج اور اس کے جاسوس ادارے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لبنان کے سیکیورٹی سے متعلق سفیر کا کہنا ہے کہ یہ پیجرز تائیوان سے امپورٹ ہوئے تھے۔ یہ گولڈ اپالو برانڈ سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم ان پیجرز کی تیاری یورپی کمپنی نے کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے اسرائیلی ادارے اس حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ پیجرز اسی سال لبنان پہنچے تھے۔ جن کے لبنان پہنچنے کے ساتھ ہی اسرائیلی اداروں نے انہیں ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ گولڈ اپالو کے بانی چن کانگ نے کہا ہے کہ پیجرز میں بارود رکھنے کا کام یورپ میں کہیں ہوا ہے۔ تاہم اس کمپنی کا نام فی الحال سامنے نہیں آیا ہے۔ سنہ 1996میں حماس کے بم میکر یحییٰ عیاش کا فون ان کے ہاتھ میں پھٹنی اور ان کے قتل کے بعد سے حزب اللہ نے موبائل فونز کا استعمال ترک کر دیا تھا۔حزب اللہ کے مطابق ان پیجرز کا استعمال اس لئے شروع کیا گیا تھا تاکہ موبائل صارفین کو فوری طور پر ٹریس کرنے کی جو سہولت موبائل میں موجود ہے اسرائیل اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ لیکن اسرائیلی جاسوس ادارے ان پیجرز کی پیداواری سطح پر ہی متعلقہ کمپنی کے ساتھ انوالو ہو کر ان میں بارود رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ موساد نے پیجرز کے اندر بارود رکھوایا اور اسے ایک ڈیجیٹل کوڈ کے ذریعے قابل دھماکہ بنا دیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ جس میں کسی حساس ادارے نے پیجرز میں بم رکھا ہے اور پھر اتنی بڑی تعداد میں انہیں نشانہ بنایا ہے۔ تاہم اس کے بعد اس خطرے کو نظر انداز کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ سمارٹ واچ اور موبائل فونز استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مکینیکل ڈیوائسز کا استعمال بھی اسرائیلی جاسوس ادارے مستقبل میں مینوپلیٹ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
سی آئی اے کی سابق تجزیہ کار ایملی ہارڈنگ نے کہا ہے کہ سکیورٹی کی یہ صورتحال حزب اللہ کے لئے یقیناً انتہائی شرمناک ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر حملے نہ صرف جسمانی طور پر نقصان دہ ہیں بلکہ یہ ان کے تمام حفاظتی آلات پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔
حزب اللہ نے حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے ۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ ان حملوں میں امریکا کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ ایران نے پیجر دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے صیہونی رجیم کی جانب سے دہشتگردی اور اجتماعی قتل عام کی سازش قرار دیدیا ہے، ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں کہا کہ لبنان میں کمیونیکیشن ڈیوائس میں دھماکوں کے اسرائیل اور اس کے حواریوں کی جانب سے جنگی اخلاقیات اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے، حماس نے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو قیمت چکانی پڑے گی ۔
پیجرز اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد یہ با ت ثابت ہوگئی کہ ہمارے ہاتھوں میں موجود فون اور ہم خود کتنے غیرمحفوظ ہیں ، کسی بھی ملک کے حساس اداری یہ طاقت رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے زیر استعمال ڈیوائسز کی مدد سے ہم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور لبنان میں ہوا بھی یہی ، ہم جن چیزوں پر انحصار کر رہے ہیں وہ ہمارے لئے وبال جان بنتے جارہے ہیں۔ اسرائیل نے جنگ میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو بڑھا کر دیگر ممالک کو بھی دعوت فکر دے دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے جنگوں میں اس طرح کی ٹیکنالوجی کے استعمال سے کون سے دیگر حریف ایک دوسرے کو کیا نقصان پہنچاتے ہیں، بہرحال ٹیکنالوجی کا منفی استعمال دنیا کیلئے فائدہ مند ثابت ہونے والا تو ہرگز نہیں، البتہ اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات مزید تباہی پھیلا سکتے ہیں۔