
افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کی شناخت سے متعلق چند تفصیلات سامنے آئیں۔ وہ ستمبر 2021 میں آپریشن الائز ویلکم کے تحت امریکا پہنچا تھا۔ یہ وہ پروگرام تھا جس میں امریکی انخلا کے بعد افغان شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کو تیز رفتاری سے نمٹایا گیا۔
امریکی نیوز چینل این بی سی نے لکنوال کے ایک قریبی رشتہ دار کے حوالے سے بتایا کہ مشتبہ شخص نے افغان فوج میں 10 سال خدمات انجام دیں اور قندھار میں امریکی اسپیشل فورسز کے ساتھ بھی کام کیا۔ بعد ازاں وہ واشنگٹن اسٹیٹ میں آباد ہو گیا۔ وہ شادی شدہ ہے اور اس کے پانچ بچے ہیں، مگر اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کا اس سے کئی ماہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور انہیں حملے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔
رشتہ دار نے بتایا کہ ان کی اپنی فیملی طالبان کے نشانے پر تھی، اور یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ لکنوال ایسا کچھ کر سکتا ہے، ساتھ ہی وہ جذباتی انداز میں یہ بھی کہتے پائے گئے کہ انہیں سمجھنے میں مدد چاہیے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا۔
واقعے کے سیاسی اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ فائرنگ کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن دور میں امریکا آنے والے افغان شہریوں کے مکمل جائزے کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے اس حملے کو شیطانی، نفرت پر مبنی اور دہشت گردی کا عمل قرار دیا اور کہا کہ اب ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکا داخل ہونے والے ہر فرد کی دوبارہ اور مکمل جانچ کی جائے۔







