سیاسی جماعتیں اور نظریاتی کارکن

سیاسی جماعتیں اور نظریاتی کارکن
عقیل انجم اعوان
نظریاتی سیاست کسی بھی معاشرے کی فکری اور جمہوری زندگی کا وہ ستون ہے جو قوموں کو محض ہجوم بننے سے بچاتا ہے۔ جب سیاست نظریے سے جڑی ہوتی ہے تو جماعتیں مضبوط بنتی ہیں کارکن اپنے اندر ایک ہدف اور سمت محسوس کرتے ہیں اور معاشرہ مجموعی طور پر ایک ایسے راستے پر چلتا ہے جہاں اصول اور اقدار مفادات اور وقتی فائدوں سے بالا تر ہو جاتے ہیں۔ نظریاتی سیاست دراصل سیاسی عمل کی اخلاقی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ کارکن کو سکھاتی ہے کہ سیاست صرف اقتدار کے حصول کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں اجتماعی بہبود، عوامی خدمت، اصولی موقف اور اپنے نظریے کے لیے قربانی کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر پاکستان میں اس نظریاتی سیاست کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاشرتی و معاشی اور سیاسی عوامل نے نظریاتی سیاست کو کمزور کر کے اسے مفاداتی سیاست میں تبدیل کر دیا۔ کبھی آمریت نے سیاسی کارکنوں کو تقسیم کیا کبھی پیسے اور طاقت نے سیاسی ڈھانچے کو یرغمال بنایا اور کبھی جماعتوں کی اندرونی کمزوریوں نے نظریاتی کارکنوں کا حوصلہ توڑ دیا۔ آج کے سیاسی ماحول میں ایسے کارکن خال خال نظر آتے ہیں جن کی وابستگی منصب یا شخصیت سے نہیں بلکہ کسی واضح نظریے سے ہو۔ اس تبدیلی نے سیاست کو سطحی بنا دیا ہے اور جماعتوں کو وقتی مفادات کے گرد گھمانے پر مجبور کر دیا ہے۔نظریاتی سیاست کے خاتمے کی ایک بڑی وجہ وہ سرمایہ دارانہ انتخابی کلچر ہے جو گزشتہ تین دہائیوں میں ہمارے سیاسی نظام پر غالب آیا ہے۔ انتخابات اب نظریے کے بجائے پیسے کی نمائش میں بدل چکے ہیں۔ ٹکٹ زیادہ تر ان لوگوں کو ملتے ہیں جن کے پاس وسائل ہوں حلقے میں برادری کا اثر ہو یا وہ طاقتور حلقوں کے قریب ہوں۔ مضبوط اصولوں کے حامل مگر مالی طور پر کمزور نظریاتی کارکن اکثر حاشیے پر دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ یوں جماعتوں کے اندر وہ آوازیں کمزور پڑ جاتی ہیں جو اصلاحات، اصول اور عوامی خدمت کے لیے کھڑی ہوتی تھیں۔ پیسہ جب سیاست میں داخل ہو جاتا ہے تو نظریہ باہر نکل جاتا ہے اور کارکن محض انتخابی مہم کا ایندھن بن کر رہ جاتا ہے۔ اس تبدیلی کی ایک اور وجہ وہ سیاسی مصلحتیں ہیں جنہوں نے جماعتوں کو نظریاتی سمت دینے کے بجائے اقتدار کے قریب آنے کا شارٹ کٹ سکھایا۔ اتحاد، جوڑ توڑ، پارٹی بدلنے کا رواج لوٹا کریسی اور دو نمبر سیاست نے نظریاتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کارکن جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص کل تک کسی مخالف جماعت کی قیادت کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور آج اسی جماعت میں وزارت یا طاقت کی خاطر شامل ہو چکا ہے تو اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رہنماؤں کے لیے نظریہ کوئی معنی نہیں رکھتا تو کارکن کس بنیاد پر اپنی وابستگی قائم رکھے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے نظریاتی سیاست کا سفر کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان میں کچھ جماعتیں اب بھی اپنے نظریاتی کارکنوں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کا ذکر ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے اندر ایک ایسا نظریاتی دھڑا رکھتی ہے جس نے اپنے قائدین کی جدوجہد ،قربانیوں اور عوامی حقوق کے بیانیے کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ بھٹو ازم محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے جو غریب، مزدور، کسان اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن آج بھی اپنے رہنماؤں کی غلطیوں پر تنقید کرنے سے نہیں ہچکچاتے اور یہ جماعت اسی وجہ سے اپنی فکری بنیادوں پر قائم ہے۔ سیاسی حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں اس جماعت کا کارکن اپنے نظریے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی وہ جماعت ہے جس کی بنیاد ہی نظریے پر رکھی گئی ہے۔ اس کے کارکن سخت تربیت سے گزرتے ہیں ان کے لیے سیاسی سرگرمی بطور عبادت سمجھی جاتی ہے اور ان کی وابستگی کسی شخصیت سے نہیں بلکہ ایک فکری منشور سے ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں میں تنظیمی نظم اور فکری پختگی ایک خاص شناخت رکھتی ہے۔ یہ لوگ مشکل وقت میں بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور ہمیشہ اپنی سیاسی جدوجہد کو اصولوں کے تابع رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ اس جماعت نے 2011ء کے بعد ایک ایسے طبقے کو سیاست میں متعارف کرایا جو کرپشن کے خلاف جدوجہد و انصاف کے قیام اور ریاستی اصلاحات کے نظریے سے متاثر تھا۔ پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن نے عمران خان کے بیانیے کو محض سیاسی وعدہ نہیں بلکہ ایک تبدیلی کا خواب سمجھا۔ وہ گھنٹوں جلسوں میں شریک ہوئے سوشل میڈیا پر آواز بنے اور اپنی جماعت کے بیانیے کا دفاع کیا۔ تاہم وقت کے ساتھ سیاسی حالات ٹوٹ پھوٹ، مقدمات اور مایوسی نے اس کارکن کا حوصلہ ضرور کمزور کیا ہے مگر ایک حصہ اب بھی جماعت سے نظریاتی سطح پر منسلک ہے۔ قوم پرست جماعتیں اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ پشتون قوم پرست جماعتیں جیسے عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پار ٹی اپنے اندر ایسے کارکن پیدا کرتی ہیں جو زبان، شناخت، صوبائی حقوق اور سیاسی خودمختاری کے نظریے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ ان جماعتوں کے کارکنوں میں ریاستی جبر کا سامنا کرنے کی روایت بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح بلوچ قوم پرست جماعتوں کے کارکن اپنے حقوق و وسائل اور ساحلی پٹی کے تحفظ کی سیاست سے جڑے رہتے ہیں۔ اگرچہ ان جماعتوں کی طاقت مخصوص خطوں تک محدود ہے مگر ان کا نظریاتی کردار اپنی جگہ مضبوط ہے۔ مسلم لیگ ن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ نظریاتی نہیں بلکہ شخصی جماعت ہے مگر اس کے باوجود کچھ حلقے ایسے ضرور موجود ہیں جو میاں نواز شریف کے بیانیے بالخصوص ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کو نظریاتی رنگ دیتے ہیں۔ اس بیانیے نے ایک وقت میں پارٹی کے اندر ایک نئی فکری بحث کو جنم دیا تھا۔ اگر مسلم لیگ ن اس بیانیے کو منظم انداز میں آگے بڑھاتی تو شاید وہ بھی اپنے اندر ایک مضبوط نظریاتی دھڑا تشکیل دے سکتی تھی مگر وقت کے ساتھ عملی سیاست نے اس سمت کو کمزور کر دیا۔ پاکستان میں نظریاتی سیاست کو درپیش چیلنج صرف جماعتوں کے اندر نہیں بلکہ مجموعی معاشرتی تبدیلیوں میں بھی پوشیدہ ہے۔ سوشل میڈیا نے سیاسی عمل کو تیز رفتار و سطحی اور جذباتی بنا دیا ہے۔ آج کا کارکن کتابیں کم اور ٹرینڈ زیادہ دیکھتا ہے فکر کی جگہ جوش اور دلیل کی جگہ آواز کا شور لے چکا ہے۔ ایسے ماحول میں نظریاتی سیاست کو پھلتے پھولتے دیکھنے کے لیے ایسی تربیت گاہوں کی ضرورت ہے جو کارکن میں فکری گہرائی پیدا کریں اسے تاریخ، نظریات، سیاسی فلسفے اور جمہوری اقدار سے روشناس کرائیں۔ نظریاتی سیاست کے احیا کے لیے سیاسی جماعتوں کو بھی نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ انہیں کارکن کی تربیت پر توجہ دینی ہوگی تنظیم کو مضبوط بنانا ہوگا اپنی قیادت کو جواب دہ بنانا ہوگا اور سیاست کو کاروبار کے بجائے خدمت کا راستہ دکھانا ہوگا۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی نظریاتی پرورش نہیں کریں گی تب تک پاکستان کی سیاست محض چہروں اور عہدوں کے گرد گھومتی رہے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نظریاتی سیاست مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی بلکہ محدود ہو چکی ہے۔ آج بھی پاکستان میں ایسے ہزاروں کارکن موجود ہیں جو بغیر کسی عہدے، تنخواہ یا فائدے کے اپنی جماعتوں کے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ جلسے میں صرف اس لیے جاتے ہیں کہ وہ اس جماعت کے نظریے پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کارکن پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ جب ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے تو جماعتیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اگر پاکستان کی سیاست کو مضبوط، اصولی اور عوامی مفادات سے قریب لانا ہے تو اسے دوبارہ نظریے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ورنہ سیاست وہی رہے گی جو آج ہے چند خاندانوں چند سرمایہ داروں اور چند طاقتور لوگوں کا کھیل۔ قومیں نظریات سے بنتی ہیں اور جب نظریہ ختم ہو جائے تو قومیں سمت کھو دیتی ہیں۔ پاکستان کو آج سب سے زیادہ ضرورت اسی بات کی ہے کہ نظریاتی کارکن دوبارہ مرکزی کردار ادا کریں تاکہ سیاست محض کرسی کا کھیل نہ رہے بلکہ ایک اجتماعی جدوجہد بن سکے





