ہاتھ مگر کس کے ساتھ

ہاتھ مگر کس کے ساتھ!!!
محمد مبشر انوار
ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر، آنکھوں کے سامنے ہوتی ناانصافی پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بسا اوقات جشن منانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حقائق چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ جو اعلانات کئے جا رہے ہیں، وہ تمام تر حقائق کے منافی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان نتائج کو بخوشی تسلیم کر لیتے ہیں، جو ہماری جیت کا اعلان کریں جبکہ مخالف کی آواز کو دبانے کے لئے ہمیں کھیل کے قواعد روندے جانے کی رتی بھر بھی پروا نہیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی، بنیادی طرز حکومت کی جو دھجیاں بکھرنی شروع ہوئی، وہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہی اور شہریوں کے حقوق سلب ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ آج تک جاری و ساری ہے۔ ابتدائی ایام میں ہی اقتدار کی غلام گردشوں میں شروع ہونے والی رسہ کشی سے جمہوری اقدار کا جنازہ نکلنا شروع ہوا اور اس وقت اس کا عروج ہمارے سامنے ہے اور افسوس اس امر کا ہے کہ جمہوری نظام کے تحت بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آنے والے، مسلسل اپنے اختیارات اور دائرہ کار کی قربانی دیئے جا رہے ہیں کہ کسی طرح وہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود رہیں، قطع نظر کہ ان کی حیثیت ربڑ سٹمپ کی ہو یا سجدے میں گری ہوئی ہو یا پھر گلے میں آقائوں کی زنجیر ہو، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آمریت کے دور میں افق سیاست پر نمودار ہونے والوں نے، ایک طرف انہی آمروں یا ان کے پیروکاروں سے اپنی عوامی نمائندگی، خیرات یا دھوکہ دہی یا دھاندلی سے ممکن بناءی ہو، لیکن ان آمروں یا مطلق العنانوں کے منظر سے ہٹتے ہی، حقائق آشکار تو کئے ہیں مگر مجال ہے کہ اپنی روش بدلی ہو کہ کھیل کے اصول و ضوابط سے بہرطور ذاتی مفادات ترجیح رکھتے ہیں۔ اپنی نشست کو بچانے کے لئے ہر فرد واحد و صاحب اختیار کے تلوے چاٹے، اس پر کامیابی کا جشن منایا، پوری مدت تک استحقاق کے بغیر عوامی نمائندگی کی لیکن مجال ہے کہ ایک لمحہ کے لئے کسی قسم کی شرمندگی یا ندامت کا اظہار ، ان کے کسی روئیے سے نظر آیا ہو۔ اس کی وجہ بظاہر ایک ہی نظر آتی ہے کہ چونکہ حمام میں ایسے تمام کردار ننگے ہو چکے ہیں لہذا کیسی ندامت اور کیسی شرم اور بقول خواجہ آصف کے بذات خود، ’’ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘، مگر صرف مخالفین کے لئے، اپنی ذات کے لئے سب معاف اور سب جائز کہ کھیل کے یہی نئے اصول ہیں۔ ان سب کو علم ہے کہ اگر چاپلوسی نہ کی، احکام نہ مانے، سر نہ جھکایا تو ان کی جگہ ایسے اور بہت سے قطار میں موجود ہیں جو سر اٹھانے والے کی جگہ لے سکتے ہیں اور انہیں با آسانی کسی نئے چہرے کے ساتھ تبدیل کیا جا سکتا ہے تو پھر کیوں اپنے ٹھاٹھ کی قربانی دی جائے؟ جب تک معاملات ایسے چل رہے ہیں تو کیوں اپنے لئے مشکل راستے کا انتخاب کیا جائے؟ اقتدار میں موجود سب حلوے مانڈے کھانے والے طوطے ہیں جن کا قربانی دینے والوں سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر یہ حقیقتا جمہوریت اور جمہوری اقدار سے مخلص ہوتے تو کبھی بھی ایسے منتخب ہونے کو ترجیح نہ دیتے بلکہ اس کے مخالف دھڑے میں کھڑے ہو کر اپنا نام تاریخ میں، جمہوری اقدار کے فروغ کی خاطر لڑنے والوں میں لکھواتے مگر مورخ ان کو ہمیشہ جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں میں لکھے گا۔
حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے اس امر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ پاکستان میں آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد اب ممکن نہیں رہ گیا۔ عوامی مقبولیت، روز روشن کی طرح عیاں ہے لیکن انتخابی نتائج کا اعلان اس کے برعکس کیا جاتا ہے اور مخالفین کے لئے کوئی بھی آئینی و قانونی راستہ نہیں چھوڑا جاتا اور پوری مدت کے لئے انہیں اپنے حق کے لئے دربدر ٹکریں مارنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی عجیب دکھائی دے رہا ہے کہ کس طرح آقاں کو خوش کرنے کے لئے کھلم کھلا حقائق کے منفی نشریات چلائی جا رہی ہیں بالخصوص ہری پور ہزارہ، جہاں سے تحریک انصاف کی باقاعدہ امیدوار انتخابی معرکے میں موجود تھی، کے انتخابی نتائج کی نشریات میں چھیاسی ہزار ووٹ دکھاتے ہوئے، پیچھے قرار دی گئی جبکہ ان کے مخالف ن لیگ کے امیدوار کو اسی ہزار ووٹ حاصل کرنے پر، انتخابی معرکے کی دوڑ میں آگے دکھایا جا رہا تھا۔ اس سے زیادہ پیشہ ورانہ ذمہ داری کی تذلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ سادہ گنتی کے باوجود، جو ایک چھوٹا بچہ بھی جانتا ہے کہ کون سا عدد بڑا ہے آیا چھیاسی ہزار یا اسی ہزار، اس کے باوجود سوشل میڈیا پر یہ سکرین شاٹ زیر گردش ہے کہ ایک ٹی وی چینل کی نشریات میں اسی ہزار ووٹ حاصل کرنے والے کو چھیاسی ہزار ووٹ حاصل کرنے والے سے آگے دکھایا جاتا رہا ہے۔ اس قسم کی نشریات کا مقصد سوائے ناظر کی نفسیات سے کھیلنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ جب ایک ٹی وی چینل یہ اعداد و شمار دکھا کر عوام کو نفسیاتی طور پر گمراہ کر رہا ہے تو اس کا مقصد سوائے اس کے کہ عوام کے ذہن میں یہ بٹھایا جائے کہ جیتنے والا امیدوار کون ہے، اور کچھ نہیں۔ یہی کچھ نتیجہ سامنے آنے پر ہوا کہ تحریک انصاف کی امیدوار جو بہرطور انتخابی معرکے میں کامیاب تھی، حتمی نتیجہ آنے پر ان کو ناکام قرار دے دیا گیا، صرف ایک نشست پر ہونے والی کارروائی سے دیگر ضمنی انتخابات کے نتائج کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ نے انتخابات کا انعقاد کس طرح کروایا ہے۔
ان انتخابی نتائج کے بعد، قومی اسمبلی میں بالخصوص جبکہ صوبائی اسمبلی میں بالعموم ایک سیاسی جماعت کی سادہ اکثریت مستحکم ہو چکی اور اسے اب کسی اتحادی کی ضرورت باقی نہیں رہی گویا مخالفین کو نااہل قرار دلوا کر، ہر صورت انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے نہ صرف اتحادیوں سے جان چھڑائی گئی ہے بلکہ اپنا اقتدار محفوظ کیا گیا ہے۔ مقام حیرت و افسوس ہے کہ اس کامیابی کا جشن انتہائی جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے، سمجھ نہیں رہا کہ اسے عوام میں عدم مقبولیت کا جشن سمجھوں یا قومی سطح پر جبر و دھونس و دھاندلی کے فروغ کا جشن سمجھوں؟۔ بہرکیف میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے کیا ہوتا ہے کہ درون خانہ خبریں ایسی ہیں کہ انسان محو حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے ، ہوس اقتدار میں کیا کچھ کر گزرتا ہے، جس کا نہ اسے احساس ہے نہ ملال، خیر شنید تو یہ بھی ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کی عالمی سطح پر کی جانے والی حرکات و سکنات سے ایک طرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے تو دوسری طرف کئی ایک معاملات میں مسند اقتدار پر بٹھانے والوں کو بھی خفت و ہزیمت کا سامنا ہے لہذا اگر نومبر کی مخصوص تاریخ تمام تر توقعات کے مطابق گزر جاتی ہے تو بدلے میں ن لیگ کو مزید کیا مل سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب برادرم عمران ریاض خان نے اپنے وی لاگ میں خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ بڑے میاں صاحب کے لئے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہو جائیگی اور جو چند مزید نشستیں ن لیگ کو قومی اسمبلی میں درکار ہیں، ان کا انتظام بھی بعینہ ویسے ہی کر دیا جائیگا جیسے 17نشستوں کے باوجود ن لیگ کو سادہ اکثریت دلوائی جا چکی ہے، تا کہ بڑے میاں صاحب کے انتخاب کے دوران کسی اتحادی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اگر ایسی صورتحال ہو جاتی ہے تو پھر پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہو گی، اس کے متعلق کوئی ابہام باقی نہیں بچے گا کہ 2024ء کے انتخابات میں کئے جانے والے تمام وعدے وعید ہوا تو ہو ہی جائیں گے، لیکن اگلے انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی ایک بار پھر حزب اختلاف کی خانہ پری کرتے اور سندھ تک محدود دکھائی دے گی کہ اب پیپلز پارٹی کا یہی مستقبل ہے۔ بہرکیف پاکستان میں ایسی کامیابی و اقتدار ن لیگ ہی سنبھال سکتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کے معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان میں رہی سہی، تھوڑی بہت جو اصولی سیاست بچی تھی، وہ بھی دفن ہو چکی اور اب سیاسی افق اور میدان سیاست، واقعتا ’’ سیاہ ست‘‘ بن چکی ہے۔ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے نظام کو بہتر کر رہی ہے، عوامی رائے کے احترام میں تحمل و برداشت و رواداری کے فروغ کے لئے کوشاں ہے جبکہ ہم عوامی رائے کو اچکنے کی روایات پر خوش ہو رہے ہیں، جشن منا رہے ہیں، دنیا انتخابات پر اثر انداز ہونے کی بجائے، اس کے نتائج کو نہ صرف خوشدلی سے تسلیم کر رہی ہے بلکہ مخالفین کے ساتھ ورکنگ ریلیشن استوار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ عوامی مقبولیت رکھنے والوں کے لئے زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں، ان کو سیاسی مقدمات کا نشانہ بنا کر، پابند سلاسل رکھے ہوئے ہیں کہ ذاتی مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ اس روش سے ہم اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم نے اپنے مخالفین کو زیر کر لیا ہے، ہم نے ان کی عوامی مقبولیت کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے، انہیں بے بس کر رکھا ہے لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے شہریوں کی رائے پر ڈاکہ مار کر خوش ہیں، ان کے حقوق سلب کرنے پر جشن منا رہے ہیں، اپنی ساکھ کے ساتھ ساتھ، پورے نظام ( جو بہرحال نہیں رہا، زمین بوس ہورہا ہے) کی ساکھ بھی گنوائی جا رہی ہے، نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ درحقیقت ہم یہ ہاتھ، کس کے ساتھ کر رہے ہیں !!!





