Column

قومی خدمات سے جیل تک، صاحبزادہ حامد رضا کی جدوجہد کی لازوال داستان

قومی خدمات سے جیل تک، صاحبزادہ حامد رضا کی جدوجہد کی لازوال داستان
تحریر: محمد اکرم رضوی
منظر بھوپالی نے کہا تھا:
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اِترائو، آئینہ ہمارا ہے
آپ کی غلامی کا بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے
آبرو سے مرنے کا فیصلہ ہمارا ہے
عمر بھر تو کوئی بھی جنگ لڑ نہیں سکتا
تم بھی ٹوٹ جائو گے، تجربہ ہمارا ہے
اپنی رہنمائی پر اب غرور مت کرنا
آپ سے بہت آگے نقشِ پا ہمارا ہے
غیرتِ جہاد اپنی زخم کھا کے جاگے گی
پہلا وار تم کر لو، دوسرا ہمارا ہے
وطنِ عزیز میں بسنے والے کروڑوں اہلِ سنت کے عظیم رہنما، محدثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قادری کے پوتے اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ گرفتاری دینے کے لیے پشاور سے فیصل آباد ہی آ رہے تھے۔ گرفتاری کے شرمناک اور افسوس ناک مناظر نے سنی مکتبِ فکر کے عام کارکن تک کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے کہ آخر ملک میں ایسا کیا ہو گیا ہے کہ وہ خانوادہ جس نے دہشت گردی کے خلاف بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں آج اسی خاندان کے فرزند کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ گھرانہ ہے جس کے بزرگ بانی قائد سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے قومی اسمبلی کے فلور پر دہشت گردی کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کی۔ وہ دو بار قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن رہے، صوبائی وزیر اوقاف پنجاب رہے اور دہشت گردی کے خلاف کٹھن جدوجہد کے نتیجے میں اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن تک کو چھوڑ دیا۔ وہ آخری دم تک دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔
15اپریل 2013ء کو ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزند صاحبزادہ حامد رضا کو جانشین مقرر کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شخص کو ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط علامت سمجھا جاتا ہو، کیا اس کے فرزند کو دہشت گردی میں ملوث قرار دینا انصاف کا تقاضا ہے؟ ایک ایسا رہنما جس نے ریاست اور پاک فوج کے ہر دہشت گردی مخالف آپریشن کی بھرپور حمایت کی، عوامی سطح پر امن کے بیانیے کو مضبوط کیا، اس کے ساتھ یہ رویّہ نہایت افسوس ناک اور باعث تشویش ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کا تعلق ایک ایسے علمی و روحانی خانوادے سے ہے جس نے دہائیوں تک پاکستان میں دینی خدمات، فکری و نظریاتی رہنمائی اور اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ سرانجام دیا۔ انہوں نے اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ مسلکی ہم آہنگی، مذہبی احترام، اعتدال اور رواداری کے اصول کو فروغ دیا۔ ان کا یہی موقف رہا کہ دینِ اسلام کا اصل پیغام امن، محبت اور خدمتِ انسانیت ہے۔ انہوں نے شدت پسندی کو اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوتوں کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے درجنوں فتاویٰ جاری کیے اور انتہا پسندی کے بیانیے کو علمی و نظریاتی سطح پر چیلنج کیا۔ قاتلانہ حملوں اور دھمکیوں کے باوجود ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہ آئی۔ قومی سیاست میں بھی ان کا کردار ہمیشہ مثبت، مہذب اور اصولی رہا۔ انہوں نے پارلیمان کی بالادستی، آئین کے تقدس اور سیاسی مکالمے کی روایت کو مضبوط کیا۔ وہ ہمیشہ ایسے قومی موقف کے حامی رہے جن سے ملک میں استحکام اور یکجہتی کا راستہ کھلتا ہے۔ ان کی گرفتاری نے ملک کے سیاسی، مذہبی، دینی اور سماجی حلقوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ ایک اعتدال پسند اور سنجیدہ قیادت کے ساتھ اس نوعیت کا برتائو اہلِ سنت عوام ہی نہیں بلکہ ہر سنجیدہ شہری کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ گرفتاری کا طریقہ کار پر بھی مزید سوالات کھڑے کرتا ہے۔ ہتھکڑیاں، حوالات کی سختیاں اور عدالت کے باہر غیر ضروری تذلیل جیسے واقعات نہ صرف افسوس ناک ہیں بلکہ ان سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ اعتدال پسند قوتوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ کیا اس طرزِ عمل سے انتہا پسند بیانیے کو تقویت نہیں ملے گی؟ پاکستان پہلے ہی سیاسی، معاشی، مذہبی اور سماجی بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایسے میں محب وطن اور معتدل قیادت کو احساسِ محرومی دینا مستقبل میں مزید بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مشکل وقت میں اتحادی جماعتیں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں مگر سنی اتحاد کونسل وہ واحد جماعت ہے جس نے عمران خان سے اتحاد کرکے مشکلات خریدیں، مفادات نہیں۔ اس اتحاد کے نتیجے میں سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین پر نو مئی سمیت 47ناجائز مقدمات قائم کیے گئے۔ ان کی چھوٹی بھائی صاحبزادہ حسن رضا، ان کی ہمشیرہ محترمہ اور دیگر عہدیداروں کو بھی مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ ان کی جائیداد قرق کی کوششیں ہو رہی ہیں جبکہ گاڑیاں ضبط ہوئیں، بینک اکائونٹ منجمد کر دئیے گئے۔ عدالت کے احکامات کے باوجود نام ای سی ایل سے نہ نکالا گیا۔ قومی اسمبلی کی نشست سے دس سال کے لیے ڈی نوٹیفائی کیا گیا اور انسدادِ دہشت گردی عدالت فیصل آباد نے انہیں 30سال قید کی سزا سنائی۔ یہاں تک کہ اپنی ہی جماعت کی چیئرمین شپ سے بھی محروم کر دیا گیا۔ تاہم سنی اتحاد کونسل نے ان تمام مشکلات کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا۔ یہ وہ کڑے مراحل ہیں جو کسی کمزور دل کو توڑ دیتے، مگر نبیرہ محدث اعظم نے ہر مشکل کا سامنا استقامت اور وقار سے کرتے ہوئے وفا نبھائی۔ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم اور بعد ازاں صاحبزادہ حامد رضا نے جو ہمیشہ دہشت گردی، انتہاپسندی اور تکفیری سوچ کے خلاف جرات مندانہ اور دوٹوک موقف اختیار کیا۔ انہوں نے نہ صرف امن، رواداری اور قومی یکجہتی کا پیغام عام کیا بلکہ دہشت گردی کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے واضح فتوے بھی جاری کیے۔ آج اُن ہی اصولوں اور اسی جرات مندانہ بیانیے کو سنی اتحاد کونسل کے قائم مقام چیئرمین صاحبزادہ حسن رضا پوری مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں، تاکہ پاکستان میں امن و امان، اتحادِ امت اور اعتدال پسند مذہبی فکر کا تسلسل برقرار رہے۔ وہ بھی اس مصائب و مشکلات کے سفر کو عزیمت کا سفر سمجھ کر قربانیاں دے رہے ہیں۔
بقول شاعر:
لہو میں بھیگے تمام موسم
گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر
گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
سحر کا سورج بھی گواہی دے گا
کہ جب اندھیرے کی کوکھ سے نکلنے والے مایوس تھے
تو تم کھڑے تھے
تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں جلتے چراغ
ہمیں نئی منزلیں دکھاتے رہے
تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے ولولے بخشے
تمہاری دھرتی کا ذرہ ذرہ کہے گا
کہ تم کھڑے تھے
ہوس کے مارے جب وطن کے جسم سے لپٹے
تو تم کھڑے تھے
تمہاری ہمت، عظمت اور استقامت
وہ ہمالہ ہے
جس کی چوٹی تک پہنچنا
نہ پہلے کسی کے بس میں تھا
نہ آئندہ ہوگا
سو آنے والی نسلیں بھی گواہی دیں گی
کہ تم کھڑے تھے
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صاحبزادہ حامد رضا کے حلقے این اے 104میں 23نومبر کو ضمنی انتخابات کروا دیئے ہیں مگر عوام نے صاحبزادہ حامد رضا سے بھرپور وفاداری نبھائی۔ اس حلقے میں انتہائی مایوس کن ٹرن آئوٹ صرف 13فیصد رہا۔ گزشتہ عام انتخابات میں صاحبزادہ حامد رضا نے 128687ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے مد مقابل امیدوار راجہ دانیال ریاض نے 92594ووٹ لیے تھے۔ حکمران جماعت نے اس ضمنی انتخاب میں تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود صرف 52684ووٹ حاصل کیے، جو عام انتخابات کی نسبت 39910ووٹ کم ہیں۔ اس سے حکومتی کارکردگی اور عوامی عدم اعتماد کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کی گرفتاری کے بعد سنی اتحاد کونسل کی شوری نے انکے ان کے بھائی صاحبزادہ حسن رضا کو قائم مقام چیئرمین نامزد کیا جو انکے مشن کو اسکی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں انہوں نے جس ضمنی ایف آئی آر میں صاحبزادہ حامد رضا کا نام شامل کرکے انہیں سزا دلوائی گئی تھی اس کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر لیا ہے اور این اے 104سے کامیاب قرار دیئے گئے امیدوار راجہ دانیال ریاض کی کامیابی کو بھی عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اب حتمی فیصلہ عدالتِ عظمیٰ پر منحصر ہے۔

جواب دیں

Back to top button