افغان طالبان کا الزام مسترد پاکستان اعلانیہ حملہ کرتا ہے

افغان طالبان کا الزام مسترد پاکستان اعلانیہ حملہ کرتا ہے
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ترجمان، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا بیان اس وقت اہمیت رکھتا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک سنگین بحران سے گزر رہے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان نے افغان حکومت سے کئی بار رابطہ کیا اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کی درخواست کی، تاہم افغان حکومت نے اس مسئلے پر قابل اعتماد کارروائی نہیں کی۔ اس کے باوجود پاکستان نے افغانستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی سختی سے تردید کی اور اپنی جنگ کو دہشت گردوں کے خلاف قرار دیا۔ اس تناظر میں، یہ بیان پاکستانی پوزیشن کو واضح کرتا ہے اور افغان حکومت کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے ایک سخت موقف اپنانے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان کی فوج نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ اس کی جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے، نہ کہ افغان عوام کے خلاف۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے افغان حکومت کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے 24نومبر کی رات افغانستان میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی پاکستان کسی کارروائی کا ارادہ کرتا ہے، اس کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے، جیسے کہ اکتوبر میں افغان سرزمین پر ہونے والے حملے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان کا یہ موقف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کبھی بھی غیراعلانیہ یا غیر قانونی طور پر کارروائیاں نہیں کرتا، بلکہ ہر بار عالمی سطح پر اپنے اقدامات کا کھلے طور پر اظہار کرتا ہے۔اس موقف کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ عالمی سطح پر افغانستان کی طالبان حکومت کو کئی ممالک کی طرف سے ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اور طالبان کے دہشت گرد گروپوں سے تعلقات کی نوعیت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کا یہ موقف کہ وہ افغان عوام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اس کی شفافیت اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان نے بار بار افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی کرے۔ یہ مطالبہ افغانستان کے اندر موجود دہشت گرد گروپوں، خاص طور پر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے والے گروپوں کی موجودگی کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے، جب تک افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کرتی، بات چیت ممکن نہیں۔ یہ حقیقت پسندانہ موقف ہے، کیونکہ دہشت گردوں کی سرپرستی اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کیے بغیر امن مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی معاونت اور افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے افغانستان کی جانب سے فعال تعاون کی ضرورت ہے اور پاکستان کی حکومت بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ جب تک افغانستان ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ افغانستان میں حالیہ برسوں میں امریکی چھوڑے گئے اسلحے کا استعمال پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ہوتا رہا ہے، جس نے اس بات کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ پاکستان کی داخلی سیکیورٹی صورت حال بھی پیچیدہ ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کے سرحدی علاقوں میں پناہ گاہوں کی وجہ سے۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ رواں سال جنوری سے اب تک 67ہزار آپریشنز کیے جا چکے ہیں، جن میں سب سے زیادہ آپریشن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں۔ ان آپریشنز کے دوران سیکیورٹی فورسز کے کئی اہلکار شہید ہوئے ہیں اور 210دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ یہ آپریشنز دہشت گردوں کی کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہیں، تاہم ان کی تعداد اور شدت اس بات کا اشارہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی تک جاری ہے اور اس کے خاتمے میں مزید وقت درکار ہے۔ پاکستان کی فوج کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے آپریشنز یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردوں کے خلاف متحد ہیں اور دہشت گردوں کا پیچھا ان کے آخر دم تک کیا جائے گا۔ یہ عزم پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے اقدامات میں کسی بھی طرح کی نرمی نہیں برتیں گی۔ پاکستان کے سابق انٹیلی جنس چیف، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم، ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بارے میں کسی بھی قسم کی قیاس آرائیوں سے گریز کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی اس معاملے پر کوئی عمل درآمد ہوگا یا فیصلہ کیا جائے گا تو اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اس وقت انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خلاف ایک موثر اور مربوط جنگ کی ضرورت ہے، جو صرف عالمی سطح پر بات چیت اور تعاون سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کرے گا جب تک افغانستان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی نہیں کرتا۔ ساتھ ہی، پاکستان کی فوج کی مسلسل کارروائیاں اور قربانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم میں کسی بھی قسم کی نرمی نہیں دکھائے گا۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کو اپنی ذمے داریوں کو سمجھتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات کرنا ہوں گے اور سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ تب ہی دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن اور استحکام ممکن ہوسکتا ہے۔
بیروزگاری کی شرح میں بڑا اضافہ
پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں حالیہ اضافہ، جو 7.1فیصد تک پہنچ چکا ہے، ایک سنگین مسئلہ ہے جو نہ صرف اقتصادی ترقی کو متاثر کرتا ہے بلکہ معاشرتی عدم استحکام کا سبب بھی بن رہا ہے۔ قومی لیبر فورس سروے 2024۔25کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں بے روزگاری میں 0.8فیصد کا اضافہ ہوا اور اس وقت ملک میں قریباً 80لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال نئے فارغ التحصیل افراد اور ورک فورس میں شامل ہونے والے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا قریباً 43فیصد ورکنگ ایج پاپولیشن پر مشتمل ہے، لیکن ان میں سے نصف سے زیادہ افراد غیر فعال ہیں۔ اس کے ساتھ غیر روایتی شعبوں میں روزگار کی فراہمی کی شرح میں کمی اور روایتی شعبوں جیسے زراعت اور صنعت میں کمزوری نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سروے کی مطابق سروسز سیکٹر میں سب سے زیادہ روزگار کی فراہمی ہو رہی ہے، لیکن زرعی اور صنعتی شعبوں میں بھی اہم مواقع موجود ہیں، جنہیں زیادہ بہتر طور پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے سروسز سیکٹر میں قریباً 3کروڑ 18لاکھ افراد برسر روزگار ہیں، جو اس بات کا غماز ہی کہ اگر سروسز کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی جائے تو روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم، زرعی اور صنعتی شعبے میں روزگار کی شرح بالترتیب 33.1فیصد اور 25.7فیصد ہے، جو ان شعبوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ ان شعبوں میں مہارتوں کا فقدان اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان میں فی کس ماہانہ اوسط اجرت 39ہزار 42روپے ہے، جو گزشتہ پانچ سال میں 15ہزار 14روپے کے اضافے کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس اضافے کے باوجود بھی، اجرتوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ خواتین کی ماہانہ اجرت مردوں سے قریباً 2ہزار روپے کم ہے۔ اس فرق کو کم کرنے کے لیے پالیسیوں میں جدت لانا ضروری ہے تاکہ خواتین کے لیے بھی یکساں مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ پاکستان کی اقتصادی صورتحال اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہی۔ آئی ایم ایف کی شرائط اور عالمی دبائو کے باوجود، ملک میں مستحکم اقتصادی پالیسیوں کا نفاذ اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت زرعی اور صنعتی شعبوں کی ترقی پر بھی توجہ دے۔ مزید برآں، نوجوانوں اور خواتین کے لیے ہنر مندی اور تعلیم کے نئے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح سے بچ سکیں۔ آخرکار، اس سروے کے نتائج پاکستان میں معاشی استحکام کی ضرورت اور اس کے لیے درکار پالیسیوں کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی لیبر فورس کو بہتر تربیت اور جدید مہارتوں سے لیس کریں، تو بے روزگاری کی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے ۔







