احسان اور کیفیتِ احسان ۔۔۔
احسان اور کیفیتِ احسان ۔۔۔
شہر خواب
صفدر علی حیدری
لفظ احسان کا مادہ ’’ ح ۔ س ۔ ن‘‘ ہے، جس کے معنی ہیں: عمدہ، خوبصورت اور دلکش ہونا۔ لغوی طور پر یہ صرف حسن کی جسمانی یا ظاہری صورت تک محدود نہیں بلکہ یہ ہر اس عمل، صفت اور رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کمال، لطافت اور جمال کے حامل ہوں۔ امام راغب اصفہانی کے مطابق حسن وہ کیفیت ہے جو ہر لحاظ سے پسندیدہ ہو، عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترے، قلبی رغبت و چاہت کے اعتبار سے دل کو بھلا لگے، اور حسی طور پر یعنی دیکھنے، سننے اور پرکھنے کے لحاظ سے بھی پرکشش ہو۔
اسی بنیاد پر باب افعال کا مصدر احسان ہے، جس کا مفہوم صرف نیکی نہیں بلکہ نیکی کے انجام میں جمال و حسن کی کیفیت رکھتا ہے۔ گویا احسان کسی بھی عمل یا فعل کی اعلیٰ ترین، عمدہ اور خوبصورت صورت ہے جس میں نہ کسی قسم کی کراہت یا ناپسندیدگی موجود ہو اور نہ ہی عمل کرنے والے یا اس کا مشاہدہ کرنے والے کے دل میں کسی قسم کا بیزاری کا احساس جاگزیں ہو۔ اس اعتبار سے قرآن مجید میں احسان کو تزکیہ کے ساتھ ہم معنی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ باطن و ظاہری صفات دونوں کی پاکیزگی اور حسن کی علامت ہے۔
لغوی معنوں میں احسان کا مفہوم نیکی، اچھا سلوک، مہربانی اور حسن عمل کے اظہار میں آتا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو انسان کے اعمال میں ذاتی، معاشرتی اور روحانی خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہے۔ احسان صرف عمل کا نام نہیں بلکہ عمل کی روحانی کمال کی حالت ہے، جو نہ صرف انسان کو اللہ کے قریب لاتی ہے بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی اس کی قدر اور محبت پیدا کرتی ہے۔
حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا: ’’ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اور اگر یہ کیفیت نصیب نہ ہو تو کم از کم یہ یقین کر لے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔
اس حدیث میں احسان کو عبادت کے اعلیٰ درجے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ حضور اکرمؐ کے فرمان کے مطابق احسان عبادت کی وہ حالت ہے جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کیفیت نصیب ہو، یا کم از کم یہ یقین پیدا ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اس کیفیت میں بندہ عبادت کو مکمل خضوع، خشوع اور آداب کی ساتھ ادا کرے گا۔ اس کا ظاہری فعل، داخلی ارکان اور دل کی کیفیت سب مکمل ہوں گے، اور کسی قسم کی کمی یا کمی محسوس نہ ہوگی۔
یہ بات واضح کرتی ہے کہ احسان محض ظاہری نیکی نہیں بلکہ وہ اعلیٰ اخلاقی، روحانی اور عملی کیفیت ہے جو انسان کی عبادت اور اعمال میں جمال، حسن اور فصاحت پیدا کرتی ہے۔ یہ کیفیت انسان کو صرف اللہ کے قریب نہیں لاتی بلکہ اس کے معاشرتی رویے، خاندانی تعلقات اور خدمت انسانیت میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔
امام علیؓ سے پوچھا گیا: ’’ کس طرح پتہ چلے گا کہ انسان کی قدروقیمت کیا ہے؟‘‘۔
امیر المومنینؓ نے فرمایا: ’’ جس انسان میں احساس زیادہ ہوگا، اس کی قیمت بھی زیادہ ہوگی‘‘۔
یہاں احساس کی کیفیت کو انسان کی حقیقی قدر کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ احساس کی کشش انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور معاشرتی تعلقات کی بنیاد بنتی ہے۔ جب انسان اپنے دل میں محبت، ہمدردی اور خدمت خلق کی کیفیت پیدا کر لیتا ہے، تو یہ نہ صرف اس کی شخصیت کی شناخت بن جاتی ہے بلکہ معاشرے میں بھی اسے احترام اور مقام عطا کرتی ہے۔
امام زین العابدینؓ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ خدمتِ انسانیت کے اجر کی حقیقت جان جائیں تو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کریں گے تاکہ اس عظیم اجر کو حاصل کیا جا سکے۔
اسی روح کو شاعر مشرقؒ نے یوں بیان کیا:
خدا کے بندے تو ہزاروں ہیں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا، جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ اشعار انسانی محبت، خدمت اور احسان کے فلسفہ کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یعنی حقیقی عبادت اور نیکی صرف اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ بندوں سے محبت، خدمت اور خیرخواہی میں بھی نمودار ہوتی ہے۔احساس کی دولت کے ساتھ خدمت خلق شامل ہو جائے تو یہ فرد کی زندگی میں روشنی پیدا کرتی ہے اور معاشرے میں خیر کا چراغ جلتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر، اللہ نے ہماری الھادی ویلفیئر اینڈ یوتھ فورم کا آئیڈیا عطا کیا، جس کے رمضان دسترخوان نے لوگوں کے دلوں میں اطمینان، سکون اور آسودگی کی فضا قائم کی۔
گزشتہ دو برسوں میں ہمارے رمضان دسترخوان نے عزت و تکریم کے جو انعامات عطا کیے، ان کا اظہار الفاظ میں کرنا ممکن نہیں۔ اس کام میں ابتدائی رکاوٹیں آئیں لیکن اللہ کی عنایات اور حضورؐ کی برکت سے ہر منصوبہ کامیاب رہا۔ پروفیسر خالد محمود خالد نے اس نیک کام کی خوب ترجمانی کی اور اسے معاشرتی سطح پر پیش کیا۔
یہ مثال واضح کرتی ہے کہ احسان اور خدمتِ انسانیت کے ساتھ احساس اور محبت شامل ہونے پر انسان اپنی ذات سے بڑھ کر معاشرتی اور روحانی عروج حاصل کر سکتا ہے۔ یہ شخصیات پہلے اپنے احباب، پھر معاشرتی کارواں اور بالآخر انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت بن جاتی ہیں۔
حضرت علیؓ علم، شجاعت اور عمل کے عالی مقام شخصیت تھے۔ انہوں نے ہر میدان میں احسان اور کمال کی عملی مثال قائم کی۔
غزوہ بدر میں شجاعت کے جوہر دکھائے اور حضورؐ کی حفاظت میں ستر زخم برداشت کیے۔
غزوہ خندق میں عمرو بن عبدہ کی للکار کا مقابلہ کیا اور حضورؐ کے فرمان کے مطابق عمل کیا: ’’ کل اسلام کل کفر کے مقابلے پر جا رہا ہے‘‘۔
معاہدہ حدیبیہ میں، مشرکین کی تحریری ضد کا دفاع کرتے ہوئے حضورؐ کے حق کا تحفظ کیا۔
خیبر کا قلعہ قموس فتح کیا اور یہودی سازشوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا۔
حضرت علیؓ علم و فضل، فقہ، خطابت، اجتہاد اور مجاہدت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔
حضورؐ نے خود کہا کہ وہ علم کا دروازہ ہیں، جبکہ خود کو علم کا شہر قرار دیا۔ ان کی خلافت میں داخلی مسائل کے باوجود سیستان اور کابل میں فتوحات ہوئیں۔ ان کی عمر مبارک 63سال اور عہد خلافت 4سال و 9ماہ تھا۔
یہ تمام واقعات اور تاریخی لمحات ظاہر کرتے ہیں کہ حقیقی احسان، علم، شجاعت اور خدمت انسانیت کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ علم، عبادت اور انسانی خدمت کا امتزاج انسانی شخصیت کو کامل، بلند مقام اور معاشرتی عزت عطا کرتا ہے۔
احسان صرف عبادت یا نیکی نہیں بلکہ وہ کیفیت ہے جو عمل، کردار اور رویے میں حسن، جمال اور کامل کمال پیدا کرتی ہے۔ یہ انسانی زندگی کی روحانی، اخلاقی اور معاشرتی بنیاد ہے۔ احساس، خدمت، علم اور شجاعت کے امتزاج سے انسان نہ صرف اپنی ذات کی بلندی حاصل کرتا ہے بلکہ معاشرے کے لیے بھی چراغِ ہدایت بنتا ہے۔
نبی اکرمؐ ، حضرت علیؓ کی تعلیمات اور شاعر مشرقؒ کی بصیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حقیقی احسان وہی ہے جو دل، عقل، نظر اور عمل میں ہمہ جہت حسن پیدا کرے، اور انسان کو اللہ، اس کے بندوں اور دنیا کے ساتھ متوازن تعلق میں قائم رکھے۔





