ColumnQadir Khan

کابل سے اختتام: تزویراتی گہرائی کے سراب سے حقیقت کے صحرا تک

کابل سے اختتام: تزویراتی گہرائی کے سراب سے حقیقت کے صحرا تک
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
سیاست اور ریاست کے تعلقات میں جب ’’ امید‘‘ کا لفظ ناپید ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ سفارتی لغت کے تمام باب بند ہو چکے ہیں اور اب بات میز کے بجائے میدان میں طے ہوگی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کہ ’’ ہم نے افغان طالبان کے حوالے سے ہر طرح کی امید ختم کر دی ہے اور مستقبل میں بھی کابل سے اچھائی کی کوئی توقع نہیں‘‘، محض ایک سیاسی بیان نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی چار دہائیوں پر محیط اس افغان پالیسی کا باضابطہ اور دردناک جنازہ ہے جسے کبھی’’ اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ یا تزویراتی گہرائی کے خوشنما نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ بیان اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں میں گونجنے والی اس مایوسی کا اظہار ہے جو پچھلے دو سالوں سے مسلسل پک رہی تھی۔ وہ کابل، جس کے فتح ہونے پر اسلام آباد میں مٹھائیاں تقسیم کرنے کی باتیں کی جاتی تھیں اور جس کی کامیابی کو خطے میں پاکستان کی جیت سے تعبیر کیا جاتا تھا، آج اسی کابل کے حکمرانوں سے پاکستان کو اپنی سلامتی کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا جبری ستم ظریفی کا لمحہ ہے جہاں محافظ اور حملہ آور کے درمیان لکیر دھندلا چکی ہے اور وہ لوگ جنہیں کبھی ’’ اثاثہ‘‘ سمجھا جاتا تھا، اب ’’ بوجھ ‘‘ نہیں بلکہ ’’ خطرہ‘‘ بن چکے ہیں۔
خواجہ آصف کا یہ کہنا کہ پاکستان نے کابل سے تمام امیدیں ختم کر دی ہیں، دراصل اس بیانیے کی شکست کا اعتراف ہے جو یہ سمجھتا تھا کہ افغان طالبان کی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کو نکیل ڈالے گی۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا رشتہ محض سیاسی پناہ کا نہیں بلکہ یہ نظریاتی اور خونی رشتہ ہے، جسے ایک ہی بستر کی دو چادریں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جب خواجہ آصف خوست میں فضائی حملوں کے الزام پر بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج ایک ڈسپلن فورس ہے اور ہم کبھی سویلینز کو نشانہ نہیں بناتے، تو یہ جملہ صرف ایک دفاعی وضاحت نہیں بلکہ ایک تزویراتی مجبوری کا اظہار بھی ہے۔ جنگ جب ایسے دشمن کے خلاف ہو جو عام شہریوں کی ڈھال استعمال کرتا ہو اور سرحد کے اس پار بیٹھا ہو جہاں اسے ریاستی سرپرستی حاصل ہو، تو روایتی فوج کے لیے چیلنجز کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان کا یہ موقف کہ ہم شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، ایک اخلاقی برتری کا دعویٰ تو ہے لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ جب سرحد پار سے مسلسل حملے ہوں اور آپ کا پڑوسی ملک ان حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکاری ہو، تو پھر صبر کا پیمانہ لبریز ہونا فطری امر ہے۔
یہاں سوال صرف سرحد پار سے آنے والی گولی کا نہیں ہے بلکہ اس اعتماد کا ہے جو چکنا چور ہو چکا ہے۔ جب کابل میں طالبان راج قائم ہوا تو پاکستان میں یہ تاثر عام کیا گیا کہ اب مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی، انڈیا کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا اور ہم اپنی پوری توجہ مشرقی سرحد پر مرکوز کر سکیں گے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ مغربی سرحد آج مشرقی سرحد سے زیادہ سلگ رہی ہے۔ خواجہ آصف کا بیان اس تلخ حقیقت کا برملا اظہار ہے کہ ’’ برادر اسلامی ملک‘‘ کا رومانوی تصور اب قومی سلامتی کے تقاضوں کے سامنے دم توڑ چکا ہے۔ افغان عبوری حکومت کا رویہ نہ صرف سفارتی آداب کے منافی رہا ہے بلکہ ان کا طرزِ عمل ایک ایسے پڑوسی جیسا ہے جو اپنے گھر میں لگی آگ کو بجھانے کے بجائے پڑوسی کے گھر میں چنگاری پھینکنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال اس لیے بھی گھمبیر ہے کہ معاشی طور پر کمزور ریاست ایک طویل مدتی کم شدت والی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، لیکن دوسری طرف اگر اس خطرے کو وہیں روکا نہ گیا تو یہ آگ ملک کے بندوبستی علاقوں تک پھیلنے میں دیر نہیں لگائے گی۔
وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ مستقبل میں بھی اچھائی کی کوئی امید نہیں، دراصل ایک ’’ پالیسی شفٹ‘‘ کی نوید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کابل کی خوشنودی یا وہاں کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے طویل اور بے نتیجہ ادوار پر وقت ضائع نہیں کرے گا بلکہ اپنی سلامتی کے لیے جو بھی ضروری قدم ہوگا، وہ اٹھائے گا چاہے وہ یکطرفہ ہی کیوں نہ ہو۔ خوست میں ہونے والے واقعات اور اس کے بعد افغان ردعمل نے ثابت کیا ہے کہ کابل میں بیٹھے حکمران پاکستان کی سالمیت کو وہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں جس کا تقاضا بین الاقوامی قوانین اور اچھے پڑوسیوں کے تعلقات کرتے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر رہا تھا، اس وقت بھی الزام یہی لگتا تھا کہ ہم ’’ ڈبل گیم‘‘ کر رہے ہیں، لیکن آج جب ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس کے تانے بانے افغانستان سے مل رہے ہیں، تو دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور کابل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
اس صورتحال کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغان طالبان شاید یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اپنی جغرافیائی مجبوریوں اور نسلی و لسانی رشتوں کی وجہ سے افغانستان سے مکمل طور پر لاتعلق نہیں ہو سکتا، اور شاید یہی وہ زعم ہے جس نے انہیں اتنا بے باک کر دیا ہے۔ لیکن خواجہ آصف کا یہ جملہ کہ ’’ مستقبل میں بھی کوئی امید نہیں‘‘ اس زعم کو توڑنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ انتباہ ہے کہ ریاست پاکستان اپنی بقا کے لیے ان تاریخی اور جذباتی رشتوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے جو اسے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج کا ڈسپلن اور سویلینز کو نشانہ نہ بنانے کا عزم اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے، لیکن جنگی ماحول میں ’’ کولیٹرل ڈیمیج‘‘ کے بیانیے کو دشمن ہمیشہ پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
افغان طالبان نے خوست کے معاملے پر جس طرح پاکستان پر الزام تراشی کی، وہ ان کے روایتی مظلومیت کارڈ کا حصہ ہے۔ وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان جارح ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جارحیت کی نرسری افغانستان کی سرزمین پر ہے جہاں سے نکلنے والے خودکش بمبار پاکستان کے بازاروں اور مساجد کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ وزیر دفاع نے اس الزام کو رد کر کے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان عالمی برادری کے سامنے اپنا کیس لڑنے کے لیے تیار ہے اور وہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور شہری آبادی میں فرق کرنا جانتا ہے۔ دشمن کی پہچان میں غلطی کسی بھی ملک کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے اور پاکستان نے یہ غلطی بارہا دہرائی ہے کابل سے خیر کی توقع نہ رکھنا دانش مندی ہے، لیکن اپنے گھر کو اس شر سے محفوظ رکھنا اصل امتحان ہے۔

جواب دیں

Back to top button