اٹھارویں ترمیم پر حملہ کیوں؟

اٹھارویں ترمیم پر حملہ کیوں؟
روشن لعل
یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اٹھارویں ترمیم پر حملے کی تیاریاں انتہائی زور و شور سے جاری ہیں۔ جس طرح اٹھارویں ترمیم پر حملے کی تیاریاں سب کے سامنے آچکی ہیں اسی ہر کسی پر یہ بھی عیاں ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسے آئین میں جوں کا توں رکھنے کے لیے کس قدر حساس ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی حساسیت کا اندازہ ان کی ستائیسویں ترمیم کی منظوری کے دوران کی گئی اس تقریر سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی کا باپ بھی اس کو ختم نہیں کر سکتا ۔ کچھ لوگوں کے مطابق بلاول کے بیان کی تشریح یہ ہے کہ ملک میں طاقت کا محور سمجھے جانے والے لوگ بھی اٹھارویں ترمیم کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ بلاول نے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے اس قسم کا بیان پہلی مرتبہ نہیں دیا۔ عمران خان کے دورحکومت میں جب ملک میں دوبارہ صدارتی نظام نافذ کرنے کے بیانات دیئے جارہے تھے ، ان دنوں بلاول نے یہ کہا تھا کہ ہم 18ویں ترمیم پر آنچ نہیں آنے دیں گے، ’’ کچھ قوتیں ہم سے ہمارے ادارے چھیننا چاہتی ہیں‘‘، ’’ ہم 1973 کے آئین اور 18ترمیم کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے‘‘۔ اسی دور میں جب آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں تو انہوں نے بھی بلاول کی طرح کچھ یوں کہا تھا، ’’ مجھ پر اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ، میں گرفتاری سے نہیں ڈرتا اور کسی بھی وقت جیل جانے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
جس اٹھارویں ترمیم کے تحفظ کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت اس حد تک حساس ہے کہ جیلوں میں جانے سے بھی نہیں ڈرتی اس ترمیم کی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کی تاریخ کے ان اوراق کو دیکھنا ہوگا جنہیں بوجوہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ کسی زمانے میں محمد علی جناحؒ ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت سے بہت پہلے محمد علی جناحؒ نے کانگریس کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے خود کو ہندوستان بھر میں متعارف کرایا۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مشترکہ پلیٹ فارم سے ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے یہی محمد علی جناحؒ پھر قائد اعظم بن کر صرف مسلمانوں کے رہنما کی حیثیت سے سیاست کرتے نظر آئے۔ کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح بیک وقت کانگریس کے ساتھ مسلم لیگ کے بھی رکن رہے اور پھر ان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آیا کہ ہندو مسلم اتحاد کے اس داعی نے ، 1940ء کی قرارداد لاہور میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کر دیا۔ مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ پیش کرنے کے باوجود انہوں نے کیبنٹ مشن پلان(Cabinet Mission Plan)کے اس مسودے کی حمایت کرتے ہوئے ہندوستان کو متحد رکھنے پر آمادگی کا اظہار کردیا جس میں مرکز کو خارجہ، دفاع ، مواصلات اور جزوی طور پر مالی اموردینے کے علاوہ دیگر تمام اختیارات صوبوں کو دینے کی سفارشات کی گئیں تھیں۔ یہاں قائد اعظمؒ کے موقف کو سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ نہ صرف قرارداد لاہور بلکہ کیبنٹ مشن پلان میں بھی مرکز کے مقابلے میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کی بات کی گئی تھی۔ مذکورہ مختصر سی تفصیل سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے داعی محمد علی جناحؒ نے تبدیلی کے کس عمل سے گار کر قائد اعظم کی حیثیت میں دو قومی نظریے کو بنیاد بناتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان بنانے کی بنیاد رکھی۔
مولانا عبدالحمید بھاشانی کے متعلق موجودہ پاکستان کی نوجوان نسل کو کم ہی علم ہے۔مولانا بھاشانی وہ شخص تھے جو سیاست میں قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مہاتما گاندھی کے ہم عصر رہے اور جن کا کردار تحریک پاکستان میں کسی سے بھی کم نہیں تھا۔پاکستان سے ان کی وابستگی کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اگر آسام کا علاقہ سلہٹ ریفرنڈم کے نتیجے میں پاکستان کا حصہ بنا تو دیگر عوامل کے ساتھ اس کے لیے مولانا بھاشانی کی دن رات کی گئی محنت اور مہم جوئی نے بھی کافی اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے مسلم لیگ کو خیرآباد کہہ کرایسی سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کی جن کی ترجیح بلاامتیاز انسانوں کے حقوق کا حصول اور دفاع تھا۔اس کے باوجود بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے تک پاکستان کے ساتھ ان کی وفاداری غیر مشکوک رہی۔ مولانا بھاشانی کے متعلق مشہور ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اس وقت کے صدر ایوب خان نے انہیں اپنا خاص ایلچی بنا کر چین بھیجا تاکہ وہ پاکستان کے لیے حمایت حاصل کر سکیں۔ مولانا بھاشانی نے وفاق پاکستان کے اندر رہتے ہوئے نہ صرف مشرقی پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی جدوجہد کی بلکہ وہ ون یونٹ کے خاتمے اور مغربی پاکستان کے صوبوں کی سابقہ حیثیت میں بحالی اور خود مختاری کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ یحییٰ خان نے جب ون یونٹ کا خاتمہ کیا تومولانا بھاشانی کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ صدر پاکستان کو کہ ایک قدم مزید آگے بڑھا کر صوبائی خود مختاری کا اعلان بھی کر دینا چاہیے۔مولانا بھاشانی کے اس مطالبے سے بہت پہلے شیخ مجیب الرحمٰن اپنے ان چھ نکات کا اعلان کر چکے تھے جن میں صوبائی خود مختاری سے بہت زیادہ اور علیحدگی کے قریب تر مطالبات شامل تھے۔ ان چھ نکات کی بنیاد پر شیخ مجیب نے1970ء کے الیکشن کے دوران اپنی انتخابی مہم چلائی۔ مولانا ستمبر 1970ء کے وسط میں صدر یحییٰ خان سے ملنے آخری مرتبہ پاکستان آئے۔ ان کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی ( بھاشانی) کے جو لوگ اب تک زندہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ سے براستہ لاہور راولپنڈی جاتے ہوئے مولانا بھاشانی نے انہیں بتایا کہ صدر یحییٰ خان سے ان کی ملاقات کا مقصد ان سے صوبائی خود مختاری کا اعلان کروانا ہے کیونکہ بصورت دیگر ان کے لیے انتخابات میں شیخ مجیب کے چھ نکات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔مولانا بھاشانی جب یحییٰ خان سے اپنی بات منوانے میں ناکام رہے تو انہوں نے1970ء کے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا ۔ اس کے بعدبھاشانی جب واپس مشرقی پاکستان گئے تو وہاںسمندری طوفان کی وجہ سے ہزاروںلوگ ہلاک اور اس سے بھی کہیں زیادہ بے گھر ہوئے۔بھاشانی نے ایک مرتبہ پھر انتخابات کے التوا کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے قبل لوگوں کی بحالی کا کام ہونا چاہیے ۔جب ان کا یہ مطالبہ بھی نہ مانا گیا تو پھر قیام پاکستان کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے والے مولانا عبدالحمید بھاشانی نے23 نومبر 1970ء کو نہ صرف انتخابات کے بائیکاٹ بلکہ مغربی پاکستان کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہنی کا اعلان بھی کر دیا۔ شاید اس وقت تک مولانا بھاشانی بھانپ چکے تھے کہ آنے والے وقت میں مشرقی پاکستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کی بنیاد ایک طرف قرارداد لاہور اور دوسری طرف قائداعظمؒ کے اس فہم میں پنہاں ہے جس کے تحت انہوں نے کیبنٹ مشن پلان کی حمایت کی تھی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قرارداد لاہور کو فراموش کرتے ہوئے جب صوبوں کو ان کے حقوق سے مسلسل محروم رکھا گیا توبھاشانی جیسے تحریک پاکستان کے کارکن نے کیا راستہ اختیار کیا تھا۔





