بے روزگاری کی بڑھتی شرح۔ خطرے کی گھنٹی

بے روزگاری کی بڑھتی شرح۔ خطرے کی گھنٹی
تحریر: رفیع صحرائی
پاکستان میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ایک بار پھر اس حقیقت کو آشکار کر رہی ہے کہ ہمارا معاشی، تعلیمی اور انتظامی ڈھانچہ وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ناکام رہا ہے۔ قومی لیبر فورس سروے 25۔2024کے تازہ نتائج نے ملک میں موجود معاشی دبا اور مستقبل کے چیلنجوں کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنے والے برسوں میں بیروزگاری کا بحران پورے معاشرتی تانے بانے کو متاثر کر سکتا ہے۔ بیروزگاری کے اعداد و شمار نے ایک تشویشناک منظرنامہ پیش کیا ہے۔
قومی لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں گزشتہ پانچ برسوں میں 0.8فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ یہ شرح بڑھ کر 7.1فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ 21۔2020بے روزگاری کی شرح 6.3فیصد تھی۔ اس وقت قریباً 80لاکھ افراد ملک میں روزگار سے محروم ہیں۔ یہ صرف اعداد ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تعداد لاکھوں گھروں کی معاشی بے چینی، محرومی اور عدم استحکام کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
اگر ہم بھکاریوں، نیم بے روزگار افراد اور ان لوگوں کو بھی شامل کر لیں جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں، تو ملک میں ایسے افراد کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد بن جاتی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ملک میں کمانے والے کم اور کھانے والے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں، جو کسی بھی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک علامت ہے۔
بے روزگاری میں اضافے کا ایک بڑا سبب وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری محکموں میں بھرتیوں پر مسلسل پابندی اور ہزاروں خالی آسامیوں کو ختم کر دینا ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت سرکاری ملازمت کو روزگار کے تحفظ کی واحد ضمانت سمجھتی ہے مگر جب سرکاری دروازے بند ہوں تو بے روزگاری میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، آٹومیشن اور اے آئی نے سرکاری محکموں سمیت نجی اداروں میں بھی افرادی قوت کی ضرورت کم کر دی ہے۔ آج ایک فرد وہ کام کر سکتا ہے جو پہلے دس ملازمین مل کر کرتے تھے جس کے نتیجے میں سرکاری و نجی اداروں میں رائٹ سائزنگ لازم ہو چکی ہے۔ یہ ادارے اپنی جگہ سچے ہیں۔ جب ایک آدمی ان کی ضرورت پوری کرتا ہو تو وہ تین آدمی کیوں رکھیں۔
ہمارا تعلیمی نظام بے روزگاری کی اصل جڑ ہے۔ اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں اور عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے برعکس ہمارا تعلیمی نظام پرانی سوچ کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں عملی مہارتوں کے بجائے آرٹس اور ہیومینٹیز کی طرف غیر ضروری رجحان پایا جاتا ہے۔ آج کل ایف اے اور بی اے جیسی ڈگریوں کی عملی دنیا میں اہمیت کم ہو گئی ہے۔ یہ تعلیم صنعت کی ضرورت کے مطابق نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے گھوم رہے ہیں لیکن ان کے پاس وہ اسکلز نہیں جو آج کے دور میں روزگار کا ذریعہ بن سکیں۔
دیہی علاقوں کی صورتحال دیکھیں تو وہاں سرکاری نوکری کے حصول کا جنون پایا جاتا ہے۔ دیہات میں میٹرک کے بعد ہر نوجوان کا پہلا خیال سرکاری نوکری ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ہاتھ کا ہنر، مزدوری اور چھوٹے کاروبار کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وہ تصور میں اپنے آپ کو ریوالونگ چیئر پر بیٹھا دیکھتے ہیں۔ یہ سوچ نہ صرف عملی زندگی سے دور ہے بلکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ آپ غور کریں تو پتا چلے گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ ہنرمند افراد چھوٹی صنعتوں، دستکاریوں اور ٹیکنیکل اسکلز کے ذریعے اپنا مقام بناتے ہیں
بے روزگاری کے تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران کو روکنے کے لیے حکومت کو فوری اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے، جن میں چند اہم تجاویز یہ ہیں:
تعلیم میں بنیادی اصلاحات کی جائیں اور تعلیمی اداروں کو پروفیشنل و ٹیکنیکل مراکز میں تبدیل کیا جائے جہاں ذہین طلبہ کو اے آئی، آئی ٹی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ پڑھائی جائے جبکہ دیگر طلبہ کو الیکٹرونکس، مکینک، کارپینٹری، ٹیکنیشن اور دستکاریوں کی تربیت دی جائے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا یہ ادارے اپنی پراڈکٹس فروخت کر کے خود کفیل ہو جائیں گے اور حکومتی گرانٹ پر ان کا انحصار کم ہو جائے گا۔
حکومت ہنر مند افراد کا ایک مرکزی ڈیٹا بیس بنائے جس کے ذریعے صنعتوں اور نوجوانوں کو ایک دوسرے سے جوڑا جا سکے۔ نیز حکومت کی طرف سے سمال انڈسٹریز کو ٹیکس میں رعایت، آسان قرضے اور جدید تربیت فراہم کی جائے تاکہ ہنر مند نوجوان آسانی سے اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔
پاکستان کے لاکھوں نوجوان آن لائن کام کر کے زرمبادلہ لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے بین الاقوامی پیمنٹ گیٹ ویز کا مسئلہ فوری طور پر حل کرنا ہوگا اور نوجوانوں کو ترغیب بھی دینا ہو گی کہ وہ آن لائن ورکنگ کی طرف آئیں تاکہ ملک میں قیمتی زرِ مبادلہ آ سکے۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد سرکاری ملازمت کی خواہش رکھتی ہے۔ ضروری محکموں میں بھرتیوں پر پابندی کے خاتمے سے بیروزگاری فوری طور پر کم ہو سکتی ہے۔
بے روزگاری محض ایک معاشی مسئلہ نہیں، یہ پورے معاشرے کی صلاحیت، اعتماد اور استحکام کو کھا جانے والی دیمک ہے۔ اگر آج اس کے خاتمے کے لیے قدم نہ اٹھائے گئے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔





