مولانا فضل الرحمان 73ء کے آئین کے تناظر میں
تحریر : محمد راحیل معاویہ
قانون سازی کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ کھلی ڈھلی بحث و تکرار کے بعد دلائل سے کسی ضابطے کو قوم کے لیے مفید ثابت کرکے ریاستی ’’ دستور‘‘ کا حصہ بنایا جائے۔ جسے چھپ چھپا کر راتوں رات ہوشیاری، چالاکی، دھونس، دھاندلی، زور، زبردستی یا پھر مکاری کے ساتھ پاس کرانے کی کوشش کی جائے وہ ’’ ڈاکہ‘‘ تو کہلوا سکتا ہے لیکن کسی مہذب ریاست کا ’’ دستور‘‘ نہیں ہوسکتا۔
دنیا بھر کے قانون ساز ادارے دیگر اداروں کی طرح باقاعدہ نوکری کرتے ہیں اور سارا سال اپنی ریاست کے ’’ قوانین‘‘ کو عوامی مفاد اور ضروریات کے مطابق ڈھالتے رہتے ہیں تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پریشانیوں کا حل نکلتا رہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون ساز اسمبلی کو سیاسی جماعتوں نے اپنی انا، نفرت، اختلافات اور قائدین کے سیاسی بتوں کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔ جہاں حقیقی عوامی مسائل کو اپنی اپنی قیادت کے ’’ نازک مزاج‘‘ پر قربان کرنا پڑتا ہے۔ ایوان میں ملنے والا وقت اپنی سیاسی قیادت کی تعریف و توصیف اور مخالف قیادت کے رد اور برائیوں پر صرف کرنا پڑتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی نالائقی اور نااہلی کھل کر سامنے آئی ہے کہ جو ملکی آئین میں انتہائی عجلت اور تیز رفتاری سے بڑی ترمیم کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھی۔ نا نمبر پورے تھے اور نا مسودے کا علم۔ جھولی کے نیچے چھپائے اس مسودے کو البتہ وہ آئین کا حصہ بنانے پر مصر تھے۔ لیکن اس اندھی محبت کو قائل ہر کوئی تو نہیں ہوتا۔
مولانا فضل الرحمان اس معاملے میں انتہائی دانا اور سنجیدہ سیاست دان ثابت ہوئے کہ جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ان سے فوائد سمیٹنے کے بعد آنکھیں پھیر لینے والی مسلم لیگ ن اور سالہا سال انکی کردار کشی اور بدترین الزامات لگانے والی تحریک انصاف کو اپنے آگے ناک کی لکیریں نکالنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور نظر نا آنے والی حقیقی طاقتوں کو مولانا فضل الرحمن کے گھر کا بار بار طواف کرتے پوری قوم نے بچشم خود دیکھا۔ جس شاندار طریقے سے مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی باریک واردات کا منصوبہ بے نقاب کیا ہے اس پر مولانا کو داد بصیرت نا دینا بخل کے مترادف ہوگا۔ پچھلے چند دنوں میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمان کے سیاسی پیج پر نظر آئیں۔ کاش کوئی جیل میں جا کر عمران خان کو بتائے کہ جس مولانا فضل الرحمن کو مقناطیس قرار دے کر آپ دوسروں کے ساتھ چمٹنے کا طعنہ دیتے تھے اس مقناطیس کے ساتھ چمٹنے کے لیے ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے اور شاید ہی کوئی بچا ہو جو اس مقناطیس کی کشش سے مولانا کی طرف لپکنے سے باز رہا ہے۔ جس فضل الرحمن کو مولانا کہنا آپ کے نزدیک گناہ تھا اسی کو امام تسلیم کیے آپک ی جماعت اقتداء میں کھڑی تھی۔ جس مولانا کا آپ سیدھا نام لینے سے ہچکچاتے تھے اس مشکل ترین وقت میں وہی مولانا آپ کی آخری آس اور امید بنا ہوا ہے۔شاہد خاقان عباسی کے الفاظ میں کہوں تو کون سا بندہ ہے جس نے مولانا کے پاں نہیں پکڑے۔
مولانا کی سیاست کو سمجھنے کے لیے لطیف کھوسہ اپنی کج فہمی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے ملے کہ مولانا کی سیاست کو سمجھنے کے لیے کم از کم پی ایچ ڈی ضروری ہے۔ کاشف عباسی نے کہا کہ مولانا سیاست کا وہ ڈان ہے جسے سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
مولانا پاکستانی سیاست کے وہ ویٹو پاور ہیں کہ جو جس پلڑے میں اپنا وزن رکھ دیں وہ پلڑا بھاری پڑ جاتا ہے۔ وہ چاہے عمران خان کے خلاف پی ڈی ایم تحریک کا پلڑا ہو اور چاہے تو ن لیگ کی موجودہ حکومت کی ترامیم کے خلاف اپوزیشن کا پلڑا ہو۔
آصف محمود نے کیا خوب لکھا کہ آصف زرداری امام سیاست ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان سیاست کے امام اعظم ہیں ۔ آصف زرداری حقیقی طاقتور محسن نقوی کے ہمراہ مولانا کے پاس ابھی چند دن پہلے نایاب ترین تحفے لے کر پہنچے تھے تاکہ تعلقات کی فائل پر پڑی گرد و غبار دور ہو۔
مسلم لیگ ن نے مولانا کے ساتھ آنکھیں پھیرنے کے بعد آنکھیں نا ملا پانے کی مجبوری کی وجہ سے آصف علی زرداری کی ملاقات سے ہی خاموش پیغام اخذ کیا اور مولانا کو اپنا ہی ساتھی سمجھ لیا۔ لیگی حکومت نے آئینی ترمیم کا راستہ صاف سمجھا اور اس کے لیے نمبر پورے ہونے کا دعویٰ کرنے لگی۔ شہباز شریف جب مولانا کے در پر رسمی حاضری دینے پہنچے تو ادراک ہوا کہ مولانا کو سادہ سمجھتے ہوئے ہم نے جو چال چلی ہے وہ الٹی پڑ چکی ہے۔ حکومت کا بنا بنایا پروگرام جب تباہ ہوتا نظر آیا تو گورنر شپ، ایک صوبے کی حکومت، متعدد وزارتوں سمیت ہر قسم کی پاور شئیرنگ پر مولانا کو قائل کرنے کی کوششیں تیز ہوئیں جبکہ مولانا نے مسودہ پڑھے بغیر اس پر ووٹ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ مولانا نے عدالتی اصلاحات پر اپنی تجاویز بھی دیں اور حکومت نے وعدہ کیا کہ ہم ان اصلاحات کو ترمیم کا حصہ بنائیں گے۔ درحقیقت عدالتی اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں اور خصوصا فوجداری نظام کو از سر نو دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں سے انصاف حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکنات میں شامل ہے۔ دادا کیس کرتا ہے جبکہ بڑی قسمت والا ہو تو پوتا آکر فیصلہ سنتا ہے وگرنہ یہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ جھوٹے مقدمات لوگوں کی نسلیں تباہ کر رہے ہیں۔ طاقتور جس کو چاہے سسٹم میں الجھا کر اس کا مال جائیداد ہتھیا لے اور چاہے تو اس کی ناک کی لکیریں نکلوا لے۔ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کو تو گزشتہ چند سالوں میں حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے تنازعات سے ہی فرصت نہیں۔ عام آدمی کا کیس لگنے کے لیے کئی کئی سال گزر جاتے ہیں اور بسااوقات تو وہ خود ہی گزر جاتا ہے۔ لیکن کیس نہیں لگتا۔ ہاں مگر طاقت وروں کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جاتا ہے۔ عدالتی اصلاحات کا لبادہ اوڑھے مسلم لیگ ن نے اپنی خواہشات کا مسودہ پیش کر دیا جس کو مولانا فضل الرحمان نے مسترد کر دیا اور بالآخر کئی دن سے جاری اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس کا خرچ 660لاکھ روپے ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت پسندوں نے اس آئینی ترمیم کی ناکامی کو جمہوریت کی فتح قرار دیا اور مولانا فضل الرحمان آئین و جمہوریت کے محافظ قرار پائے۔ اس آئینی ترمیم میں ایک الگ آئینی عدالت کے قیام کی بات کی گئی کہ جو صوبائی و وفاقی حکومتوں و اداروں سمیت ملکی سیاسی جماعتوں سے جڑے تمام آئینی کیسز سنا کریں گی۔ بظاہر یہ تجویز بہت عمدہ اور وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے لیکن ن لیگ نے زم زم کی بوتل میں شراب بیچنے کی بڑی ہوشیاری سے کوشش کی۔ آئینی عدالت کے بن جانے کے بعد تمام ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں پڑے آئینی کیس آئینی عدالت کی طرف منتقل ہوجانے تھے جس میں مخصوص نشستوں سمیت کئی اور پیچیدہ کیس شامل ہیں۔ مستقبل میں اس عدالت کے ججز اور چیف جسٹس کا انتخاب قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی۔ کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی ہوگی جو ججز اور چیف جسٹس آئینی عدالت کا انتخاب کرکے وزیر اعظم کو بھیجے گی جبکہ وزیراعظم کی سفارش پر صدر ججز و چیف جسٹس کا تقرر کریں گے۔ لیکن اس کی بار اس کمیٹی سے یہ کام نہیں لیا جائے گا بلکہ وزیراعظم اور صدر ججز اور چیف جسٹس کا تقرر کریں گے۔آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68سال ہوگی۔ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ حکومت صرف اپنی مرضی کے ایک شخص کو آئینی عدالت کا چیف جسٹس بنانے کے لیے یہ اہتمام کر رہی ہے۔ اس ترمیم میں حکومت نے اس دیگر چیفس کی مدت ملازمت کی توسیع کو بھی آئینی تحفظ دینے کی کوشش کی۔ چیف الیکشن کمشنر تک کو سینے سے لگائے رکھنے کے لئے آئین بنانے کا بھونڈا مذاق بنایا گیا۔
یہ وہ باریک واردات تھی جو موجودہ حکومت بغیر بل سامنے لانے، بغیر اس پر بحث کروانے، چپکے سے منظور کروا کر ملک کو ایک نئے سیاسی و آئینی بحران کی جانب دھکیلنے کا منصوبہ بنا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ 1973ء کا آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کا متفقہ آئین ہے جس پر تمام سیاسی، مذہبی اور قومی دھارے کی جماعتوں کا مکمل اتفاق ہے۔ موجودہ حکومت جس شکل میں اس ترمیم کو منظور کروانا چاہتی ہے اگر یہ ہوگیا تو یہ ملکی آئین کو متنازعہ بنانے کے مترادف ہے۔
ابھی بھی عدالتی اصلاحات کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس میں اصلاحات کے لیے متفق ہونا چاہئے لیکن اس کا تعلق پورے ملک کے عوام کے مسائل کے ساتھ ہونا چاہیے نا کہ مخصوص سیاسی جماعتوں یا شخصیات کے مفاد تک۔