افغانستان کا نامناسب طرز عمل
پاکستان تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس حوالے سے اُس کی کوششیں سب کے سامنے ہیں، جہاں وطن عزیز نے دُنیا میں کئی دوست اور برادر ممالک کو پایا ہے، وہیں بعض ایسے بھی ہیں جو ظاہر و پوشیدہ ریشہ دوانیوں میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے بہت سے مواقع پر پاکستان کے حوالے سے ایسا طرز عمل اختیار کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کے لیے اُس میں بے پناہ تعصب اور نفرت کا زہر بھرا ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد حملوں کے لیے بارہا افغان سرزمین کا استعمال ہوا، پاکستان نے اس معاملے کو افغانستان کے ساتھ اُٹھایا، اُس کی جانب سے انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اپنایا گیا۔ حالانکہ 1979 میں جب سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تو پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر افغانستان اور اس کے عوام کا ساتھ نبھایا تھا۔ لاکھوں افغان مہاجرین کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے تھے۔ 43سال تک اُن کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ اُن کو تمام شعبہ جات میں مواقع دیے۔ تعلیم، کاروبار غرض شعبہ زندگی میں اُن کو بھرپور مواقع فراہم کیے گئے۔ یہاں تک کہ اُن کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ حالانکہ وطن عزیز پہلے ہی وسائل کی شدید کمی سے دوچار تھا، اُس پر یہ ’’مہمان’’ ہولناک بوجھ ثابت ہورہے تھے۔ یہ ’’مہمان’’ ملک میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا باعث بنے۔ جرائم کی متعدد وارداتوں میں ان کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میزبان کی مشکلات بڑھانے کے بجائے امن و امان قائم ہونے پر یہ ازخود اپنے وطن کی راہ لیتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اربوں کی جائیدادیں بنائیں۔ ان کی آل اولادوں نے یہاں تعلیم حاصل کی۔ کامیابی کے زینے طے کیے۔ ہر کچھ عرصے بعد افغان مہاجرین کی واپسی کے قضیے اُٹھتے رہے اور اس حوالے سے کوئی قدم نہ اُٹھایا جاسکا۔ بالآخر 2023نومبر میں نگراں حکومت نے غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی باعزت اُن کے ملکوں میں واپسی کے لیے فیصلہ کُن اقدام کیا اور اب تک لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن اپنے ملکوں کو واپس بھیجے جاچکے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اتحادی اور امریکی افواج کے انخلا میں پاکستان نے اہم کردار نبھایا۔ ہر مشکل گھڑی میں افغانستان کی مدد و معاونت کی۔ افغانستان اور اس کے عوام کو بھرپور سپورٹ کیا۔ اُن کی مشکلات میں کمی کا باعث بنا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے محسن کا کردار ادا کیا، لیکن اس کے بدلے افغانستان کی جانب سے ہر بار ایسا طرز عمل دیکھنے میں آیا، جس سے پاکستانی عوام کی بدترین دل آزاری ہوتی رہی۔ گزشتہ روز بھی ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا ہے، جس پر پاکستان کے محب وطن عوام میں شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی افغان قونصل جنرل کے پاکستانی قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونے پر افغانستان سے اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ افغان قونصل جنرل کا پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونے کے معاملے پر دفتر خارجہ نے افغان حکام کے سامنے شدید احتجاج کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور کابل میں افغان حکام تک اپنا شدید احتجاج پہنچارہے ہیں، میزبان ملک کے قومی ترانے کی بے عزتی سفارتی اصولوں کے خلاف ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ افغانستان کے قائم مقام قونصل جنرل کا یہ فعل قابل مذمت ہے۔ ادھر افغان قونصلیٹ کے ترجمان نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ میوزک وجہ تھی، ہرگز پاکستانی ترانے کی بے توقیری مقصد نہیں تھا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ ترانے میں میوزک تھا، اس لیے قونصل جنرل کھڑے نہیں ہوئے، ہم نے اپنے قومی ترانے پر بھی میوزک کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ترانہ بغیر میوزک کے چلتا یا بچے پیش کرتے تو قونصل جنرل لازمی کھڑے ہوتے اور سینے پر ہاتھ بھی رکھتے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان یا قومی ترانے کی توہین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ادھر قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونے والے افغان قونصل جنرل کا پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔ پشاور میں قومی ترانے کی بے ادبی کرنے والے افغان عہدے دار کی دستاویزات مکمل نہیں، محب اللہ شاکر کے پاس افغانی پاسپورٹ ہے اور نہ ہی کوئی دوسری دستاویز۔ نجی ٹی وی کے مطابق پی او آر کارڈ پر افغان قونصل جنرل اور اس کا خاندان 2015میں یو این ایچ سی آر سے ڈالر اور راشن لے کر افغانستان واپس جاچکے تھے جب کہ ان کے کارڈ ایکسپائر ہوچکے تھے۔ ذرائع کے مطابق یکم ستمبر سے محب اللہ سمیت تمام افغان مہاجرین غیر قانونی قیام پذیر ہیں، کیونکہ ان کو وزارت داخلہ کی جانب سے مزید توسیع نہیں دی گئی ہے۔ افغانستان کے قونصل جنرل کا یہ طرز عمل ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے۔ افغانستان میں جب سے طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی ہے، ان کا طرز عمل انتہائی غیر ذمے دارانہ رہا ہے۔ اُن کی جانب سے ایک بار بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے بالکل صحیح مدعا اُٹھایا ہے اور بہتر انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اس پر بھی افغان حکومت کی جانب سے انتہائی بھونڈی روش اختیار کی جارہی ہے۔ سفارتی آداب کی دھجیاں اُڑانے کے جواز گھڑے جارہے ہیں۔ افغانستان کو اپنے طرز عمل پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے محسن کی جانب سے کیے گئے احسانات کے بدلے اُسے کیا لوٹاتا چلاآ رہا ہے۔
لاہور: سی ٹی ڈی کی بڑی کارروائی دہشت گردی کا منصوبہ ناکام
2014ء میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب اور پھر ردُالفساد کے نتیجے میں ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کردیا گیا تھا۔ متعدد دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا گیا، بڑی تعداد میں انہیں گرفتار
کیا گیا، لگ بھگ تمام علاقوں کو شرپسندوں سے کلیئر کرایا گیا۔ ملک میں امن و امان کی فضا مکمل طور پر بحال ہوگئی۔ ڈیڑھ عشرے سے جاری دہشت گردی سے نجات ملنے پر عوام نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔ 7؍8سال تک امن و امان کی صورت حال برقرار رہی۔ ان میں ابتدائی کچھ برسوں میں وطن عزیز تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا بھی دِکھائی دیا۔ بیرونی سرمایہ کاری میں معقول طور پر اضافے دیکھنے میں آئے۔ امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملک میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھانے لگا۔ خصوصاً سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا، کبھی چیک پوسٹوں پر حملے ہوتے کبھی قافلوں کے خلاف گھات لگا کر کارروائی کی جاتی اور کبھی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا۔ ان مذموم کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کے متعدد جوانوں اور افسران نے جام شہادت نوش کیا۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے اپنے آپریشنز شروع کیے۔ روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں آپریشنز کیے جارہے ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ ہزار سے زائد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا ہے۔ متعدد علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جاچکا ہے۔ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے یہ آپریشنز شدومد کے ساتھ جاری ہیں۔ دہشت گرد ملک کے کسی گوشے میں شرپسندی کی مذموم کارروائیوں کی منصوبہ بندیوں میں لگے رہتے ہیں، گزشتہ روز سی ٹی ڈی نے لاہور میں دہشت گردی کے مذموم منصوبے کو خاک میں ملاتے ہوئے تین دہشت گردوں کو جہنم واصل کرڈالا۔ میڈیا رپورٹس سی ٹی ڈی پنجاب نے ننکانہ صاحب انٹر چینج کے قریب کارروائی کے دوران 3دہشت گرد ہلاک کر دئیے۔ سی ٹی ڈی کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ننکانہ کے قریب کچھ دہشت گرد لاہور میں دہشت گردی کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خفیہ اطلاع پر ننکانہ صاحب موٹروے انٹرچینج کے قریب کارروائی کی۔ اس دوران دہشت گردوں نے فائرنگ کردی، سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جوابی فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 3دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے جب کہ دو دہشت گرد فرار ہوگئے۔ سی ٹی ڈی نی عسکریت پسندوں کے قبضے سے دھماکا خیز مواد، دو رائفلیں، گولیاں، 3 دستی بم، دو ڈیٹونیٹر بھی برآمد کیے، دہشت گردوں نے لاہور میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی شناخت کا عمل جاری ہے اور مزید تفتیش جاری ہی اور فرار ہونے والے دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ اس کارروائی پر سی ٹی ڈی کی جتنی تعریف و تحسین کی جائے، کم ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہر دم چوکس و تیار ہیں۔ دہشت گرد چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگالیں، اپنے مذموم مقاصد میں کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز ان کے ناپاک عزائم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ آئندہ بھی دہشت گرد کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ سیکیورٹی فورسز مصروف عمل ہیں، جلد دہشت گردی کے عفریت سے قوم کو نجات ملے گی۔