Column

لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کو سزا

لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کو سزا
پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور ادارہ جاتی شفافیت ہمیشہ سے ریاستی استحکام کے بنیادی ستون رہے ہیں۔ انہی اقدار کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں گزشتہ روز ایک اہم پیش رفت سامنے آئی، جب سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت 14سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ یہ فیصلہ نہ صرف قانونی عملداری کا مظہر ہے بلکہ اس حقیقت کی بھی واضح مثال ہے کہ پاکستان کے ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے موثر اور منصفانہ کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کارروائی پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کی گئی اور پندرہ ماہ تک جاری رہی۔ یہ طویل عمل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ فوجی عدالتی نظام میں قانونی تقاضوں، شواہد اور دفاع کے حق کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا۔ ملزم کو اپنی پسند کی دفاعی ٹیم منتخب کرنے کا مکمل حق دیا گیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ کارروائی نہ صرف نظم و ضبط کے مطابق ہوئی بلکہ شفافیت کو بھی یقینی بنایا گیا۔ پاکستان آرمی کا اندرونی احتسابی نظام خطے میں اپنی نوعیت کا منفرد اور مضبوط ترین میکانزم سمجھا جاتا ہے۔ اس کیس کی طوالت، باریک بینی اور شفافیت نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ادارہ اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند ہے اور کسی مرحلے پر قانون سے بالاتر ہونے کا تصور قابلِ قبول نہیں۔ یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ پاکستان آرمی نے اس معاملے میں انتہائی پیشہ ورانہ رویہ اختیار کیا۔ فوج نہ صرف ملکی سرحدوں کی محافظ ہے بلکہ ادارہ جاتی نظم، جوابدہی اور قانونی عملداری کی بہترین مثال بھی ہے۔ اس فیصلے نے یہ تاثر مزید مضبوط کیا ہے کہ ادارہ اپنے اندرونی نظم کے حوالے سے کسی قسم کی نرمی یا رعایت نہیں برتتا۔ پاکستان آرمی کا مضبوط اور شفاف احتسابی نظام دراصل ملکی استحکام اور اداروں کی ساکھ کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس فیصلے نے دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان کے ریاستی ادارے ترقی، اصلاح اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ فیض حمید کے خلاف کارروائی چار بڑے نکات پر کی گئی: اختیارات کے استعمال سے متعلق قانونی معاملات، پاکستان آرمی ایکٹ سے متعلق ضابطہ جاتی امور، سرکاری وسائل کے استعمال سے متعلق قواعد اور متعلقہ معاملات پر انکوائری رپورٹس۔ یہ تمام نکات ادارہ جاتی نظم و ضبط کے تقاضوں کے مطابق تھے۔ فوجی قوانین میں ہر افسر خواہ وہ کسی بھی عہدے یا رتبے کا حامل ہو، انہی اصولوں کے تحت جوابدہ ہوتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کارروائی سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد شروع ہوئی، جو اس عمل کی آئینی اور قانونی سنجیدگی کو مزید مستحکم کرتی ہے۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ ریاست کے مختلف ستون قانون کی پاسداری کے ایک مشترکہ سفر میں متحرک ہیں۔ پاکستان کے ریاستی اداروں نے گزشتہ برسوں میں نہایت مشکل حالات کا سامنا کیا ہے، سیاسی عدم استحکام، معاشی دبا، اور بیرونی چیلنجز۔ ایسے ماحول میں فوج کا یہ فیصلہ نہ صرف ادارہ جاتی نظم کی مضبوطی کا ثبوت ہے بلکہ اس تاثر کی بھی نفی کرتا ہے کہ ریاست کے کچھ حصے قانون سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں۔ یہ سزا اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان کے ادارے بالکل واضح پیغام دینا چاہتے ہیں:قانون سب کے لیے برابر ہے، اور نظم و ضبط کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فوج کے بارے میں یہ عمومی تاثر ہمیشہ سے موجود ہے کہ ادارہ سخت ڈسپلن، میرٹ اور قانونی اصولوں پر کاربند ہے۔ یہ فیصلہ ان اصولوں کی مزید توثیق کرتا ہے۔ پاکستان آرمی دنیا کے ان چند اداروں میں شمار ہوتی ہے جہاں اندرونی احتساب نہایت فعال ہے اور انکوائریز، کورٹ آف انکوائری اور کورٹ مارشل جیسے نظام ہر سطح پر جوابدہی یقینی بناتے ہیں۔ یہ اقدام دراصل ان ہزاروں افسروں اور جوانوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں ایمان داری سے ادا کرتے ہیں کہ ادارہ اُن کے شفاف کردار کی قدر کرتا ہے اور نظام ہر شخص کے لیے یکساں ہے۔ یہ فیصلہ اس تاثر کو بھی تقویت دیتا ہے کہ ریاستی ادارے آئینی حدود، ضابطوں اور باہمی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل پالیسی اقدامات کر رہے ہیں۔ ایسے فیصلے اداروں کی ساکھ بڑھاتے ہیں، قومی اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں، اور عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان ترقی و استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ کیس اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ عالمی سطح پر بھی ایسی کوششوں کو مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کا یہ کردار پاکستان کے مستقبل کے لیے نیک شگون ہے، کیوں کہ قانون کی بالادستی قومی ترقی کی بنیاد ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کے خلاف فیصلہ ایک قانونی، ادارہ جاتی اور پیشہ ورانہ عمل کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ اقدام نہ کسی سیاسی رنگ کا محتاج ہے اور نہ کسی ذاتی دشمنی کا مظہر، یہ پاکستان کے اداروں کی مضبوطی، خود احتسابی اور شفافیت کا عملی ثبوت ہے۔ یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں قانون کی حکمرانی مقدم ہے، اداروں کی ساکھ مضبوط ہے، اور نظم و ضبط کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے وزیراعظم کی ہدایت
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے امور پر حالیہ جائزہ اجلاس میں دی جانے والی ہدایات پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوسکتی ہیں۔ وزیراعظم نے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ٹیکس محصولات کے اہداف کے حصول کے لیے اقدامات تیز کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ حکومت اپنی مالیاتی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے کا عزم رکھتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس نیٹ کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ملک کی بڑی آبادی کے باوجود، ٹیکس نیٹ میں شامل افراد کی تعداد کم ہے۔ وزیراعظم نے 11فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف مقرر کیا ہے، جس کا مقصد ٹیکس آمدنی کو بڑھانا اور معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے سے حکومت کو ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاحی پروگرامز کے لیے مالی وسائل فراہم ہوں گے۔ اس کے علاوہ، غیر رسمی معیشت کو رسمی دائرے میں لانے سے بھی معیشت کی بڑھوتری ممکن ہو گی۔ وزیراعظم نے کسٹمز کلیئرنس میں جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (AI)کے استعمال کی تعریف کی ہے۔ اس سے نہ صرف کلیئرنس کے عمل میں تیزی آئے گی، بلکہ کاروباری ماحول میں بھی بہتری آئے گی۔ جب درآمدات اور برآمدات کی کلیئرنس کی رفتار میں اضافہ ہوگا، تو کاروباری لاگت میں کمی آئے گی اور ملک کی تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔ اس اقدام سے عالمی سطح پر پاکستان کا مقام بہتر ہوگا اور ملکی معیشت کو تقویت ملے گی۔ وزیراعظم نے غیر قانونی سگریٹ فیکٹریوں کے خلاف کارروائی پر ایف بی آر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعریف کی۔ یہ ایک اہم قدم ہے کیونکہ غیر قانونی سرگرمیاں نہ صرف ٹیکس آمدنی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ عوام کی صحت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہیں۔ وزیراعظم کی ہدایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ٹیکس چوری اور غیر قانونی تجارت کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیراعظم نے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی بروقت ادائیگی پر بھی زور دیا ہے۔ اس سے کاروباری افراد کو مالی مشکلات سے بچایا جا سکے گا اور انہیں کاروباری سرگرمیوں کو بلا رکاوٹ جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔ جب کاروباری افراد کو اپنے واجب الادا ٹیکس ریفنڈ وقت پر ملتے ہیں، تو معیشت میں روانی آتی ہے اور کاروباری ماحول میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ وزیراعظم کی ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی ہدایات ایک مثبت قدم ہیں جو پاکستانی معیشت کو درپیش مالیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہم ہیں۔ اگر یہ اقدامات کامیابی سے نافذ ہوتے ہیں تو پاکستان کی معیشت کو استحکام ملے گا اور حکومت کو مالی وسائل کے حوالے سے اہم کامیابیاں حاصل ہوں گی۔ یہ وقت ہے کہ ایف بی آر اور دیگر ادارے ان اصلاحات کو موثر طریقے سے عملی جامہ پہنائیں تاکہ پاکستان کی معیشت مزید ترقی کر سکے۔

جواب دیں

Back to top button