Column

کیا کراچی کا بچہ پنجاب کے بچے سے کم قیمتی ہے؟

کیا کراچی کا بچہ پنجاب کے بچے سے کم قیمتی ہے؟
میری بات
روہیل اکبر
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ایک دوسرے کے سہارے اقتدار میں ہیں، لیکن تنقید کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے تو کراچی روشنیوں کا شہر ہے، ساتھ میں یہ خوابوں کی بستی اور پاکستان کا دھڑکتا دل بھی ہے، مگر آج اس شہر کی گلیاں اور نالیاں ایک ایسے المیے کی گواہ بن چکی ہیں، جو دل دہلا دیتا ہے۔ گٹروں کے غائب ڈھکن ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سننے میں چھوٹا لگتا ہے، مگر اس کی قیمت کئی گھروں نے اپنے بچوں کی زندگی سے ادا کی ہے۔ کتنے ہی معصوم بچے کھیلتے کھیلتے ان کھلے منہ والے گٹروں میں گر کر اپنی زندگی گنوا بیٹھے، کچھ حادثے ایسے بھی ہوئے جہاں بچے ماں باپ کے سامنے دم توڑ گئے، مگر ریاست اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ گلیوں میں پانی، نالیوں کا تعفن، گندے نالوں پر تنبو ڈال کر زندگی گزارنے والے لوگ یہ سب کچھ ایک ایسے شہر کا حال بیان کرتا ہے جو کبھی پاکستان کی ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ شکر ہے کہ پنجاب میں صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ لاہور میں گٹروں کے ڈھکن غائب ہونے کی خبریں شاذ و نادر ملتی ہیں اور اگر کہیں کوئی شکایت سامنے آتی بھی ہے تو اس پر فوراً کارروائی ہوتی ہے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی واضح اور دو ٹوک ہدایات ہیں کہ گٹروں کے ڈھکن غائب نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ اولین ترجیح ہے، اس لیے غیر ذمہ داری برداشت نہیں کی جائے گی۔ اسی پالیسی کا عملی ثبوت ڈپٹی کمشنر لودھراں کو عہدے سے ہٹانا بھی ہے، یہ فیصلہ محض ایک افسر کی تبدیلی نہیں، بلکہ انتظامی مشینری کے لیے ایک پیغام ہے کہ اگر عوامی مسائل پر غفلت برتی گئی تو کسی کو بھی رعایت نہیں ملے گی۔
سندھ اور پنجاب میں واحد فرق یہی ہے کہ پنجاب میں حکومت کی جانب سے اس معاملے کو انتظامی غفلت کے بجائے انسانی زندگی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، اسی وجہ سے پنجاب آج ترقیاتی کاموں میں سندھ سے کہیں آگے ہے، چاہے وہ سڑکوں کی تعمیر ہو، سیوریج سسٹم کی بہتری ہو، صفائی ہو، یا شہری سہولتیں۔ لاہور کے مقابلی میں کراچی میں تو نالے چوک بنے ہوئے ہیں اور ڈھکن غائب ہیں، مگر لاہور، فیصل آباد، ملتان، ساہیوال اور سرگودھا جیسے شہروں میں سڑکوں کی مرمت وقت پر، سیوریج لائنز کی نگرانی، شکایات کا ڈیجیٹل حل اور ضلعی انتظامیہ پر سخت مانیٹرنگ، یہ سب کچھ ایک بہتر نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں یہ بنیادی کام کیوں نہیں ہو پاتے؟ کیا انسانی زندگیاں اہم نہیں؟ کیا بچے گٹروں میں گرتے رہیں گے اور کوئی نہیں پوچھے گا؟ کیا شہر کی بڑی جماعتیں صرف تقریروں اور پریس کانفرنسوں تک محدود رہیں گی؟۔ جس دن سندھ بھی اپنی انتظامیہ سے وہی جواب طلبی کرے گا جو پنجاب میں ہو رہی ہے تب شاید سندھ کے شہری بھی محفوظ ہو جائیں، کیونکہ مسئلہ سیاست کا نہیں ترجیح کا ہے۔ پنجاب نے ثابت کیا ہے کہ اگر ترجیح شہریوں کی زندگی ہو، اگر حکومت جاگتی ہو اور انتظامیہ جواب دہ ہو تو وہ کام بھی ممکن ہو جاتا ہے جن پر دوسرے صوبوں میں برسوں صرف باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
کراچی کی وہ شام آج بھی سوال بن کر فضا میں تیر رہی ہے، جب ایک باپ نے اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے ہوئے اپنے معصوم بچے کو تھام رکھا تھا۔ گلی کے نکڑ پر کھلا گٹر، اندھیری کھائی میں منہ پھاڑے کھڑا تھا، جہاں بچہ کھیلتے کھیلتے قدم پھسلنے سے گٹر میں گرا اور پھر زندگی بجھ گئی، اسی طرح وہ ننھا سا بچہ بھی سب کو یاد ہوگا جو ماں کے سامنے گٹر میں گر کر اللہ کو پیارا ہوگیا، ماں کی چیخیں، باپ کی سسکیاں، اہلِ محلہ کا ہجوم سب ایک ہی فریاد کر رہے تھے کہ یہ گٹر بند کیوں نہیں ہوتے؟۔ لیکن اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں کیونکہ کراچی کے گلی محلوں میں غفلت پھیلی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے گٹروں کے ڈھکن غائب ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں تھا، یہ شہرِ قائد کے کونے کونے میں پھیلا ہوا المیہ ہے، ہر چند دن بعد ایک نئی خبر کے ساتھ ایک نیا جنازہ ہورہا ہوتا ہے۔ کراچی میں صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے، اس کے باوجود کوئی بھی ماں اپنے بچے کو کھیلنے سے منع نہیں کرتی، لیکن ماں کی مامتا اس وقت دھاڑیں مار کر روتی ہے جب وہی بچہ شہر کی غفلت کی بھینٹ چڑھ جائے۔ کراچی کے معصوم بچے صرف اس لیے مر رہے ہیں کہ کسی نے ڈھکن نہیں لگایا، کسی نے چیکنگ نہیں کی، کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی، کیا ریاست اتنی کمزور ہے؟، کیا شہری اپنی جان کے تحفظ کے بھی محتاج رہیں گے؟، کیا کراچی کا بچہ پنجاب کے بچے سے کم قیمتی ہے؟۔
ایک لمحے کی غفلت کئی گھروں کی زندگیاں نگل لیتی ہے، یہ وہ سوال ہیں جو سندھ کے لوگ حکومت سے پوچھ رہے ہیں، کراچی کے والدین اب یہ برداشت کرنے کے قابل نہیں کہ ان کے بچے کھلے گٹروں میں مر جائیں اور میزوں پر پڑی فائلوں پر گرد جمع ہوتی رہے، جبکہ سندھ کے مقابلہ میں پنجاب کی موجودہ صورتحال قابل تعریف ہے، مگر یہ بہتری مسلسل رہنے کی طالب ہے۔ یہاں سب ٹھیک نہیں، مگر بہت کچھ بہتر ہوا ہے اور مزید بہتری کی گنجائش بھی ہے۔ لیکن سندھ کے لیے یہ گنجائش نہیں، بے شک گٹر کا ڈھکن چند سو روپے کا ہوتا ہے لیکن جب وہ غائب ہو جائے تو اس کی قیمت ایک معصوم بچے کی جان بن جاتی ہے۔ اس لیے ہر شہر کی گلی میں پہلا حق عوام کا ہے، اگر ان کی حفاظت نہیں ہوسکتی تب تک ملک کی ترقی کے دعوے ادھورے رہیں گے۔ پاکستان بدل سکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ حکمران عوام کی جان کی حفاظت کو سیاست سے زیادہ اہم سمجھیں۔ جب تک وہ دن نہیں آتا تب تک مائوں کے جگر گوشوں کے جنازے اٹھتے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button