Column

بسنت جان لیوا کھیل یا روزگار

بسنت جان لیوا کھیل یا روزگار
تحریر:ایم اے تبسم
بسنت ایک موسمی اور ثقافتی تہوار ہے جو عموماً موسمِ سرما کے اختتام اور بہار کے آغاز پر منایا جاتا ہے، اس کا نمایاں حوالہ پتنگ بازی، پیلے کپڑے اور بہار کی خوشی کے طور پر لیا جاتا ہے، بسنت بنیادی طور پر برصغیر کا ایک پرانا تہوار ہے جسے روایتی طور پر ہندوئوں اور سکھوں نے بہار کی آمد اور خوشی کے اظہار کے لیے منایا، اس میں زرد، بسنتی رنگ خاص اہمیت رکھتا ہے، اسی لیے لوگ پیلے کپڑے پہنتے اور سرسوں کے کھیتوں اور بہاری پھولوں کو تہوار سے جوڑتے ہیں، ہندو روایت میں بسنت پنچمی کو دیوی سرسوتی کے دن کے طور پر جانا جاتا ہے، جو علم، فن اور موسیقی سے منسوب ہیں، اس دن ان کی پوجا کی جاتی ہے، سکھ روایت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے اس تہوار کو پنجاب میں بہار کے خیر مقدم کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اور بسنتی، زرد رنگ کو خاص تقدس حاصل ہے، کچھ مسلم اہلِ علم اسے ہندوانہ، غیر اسلامی تہوار کہہ کر مذہبی طور پر قابلِ اعتراض سمجھتے ہیں اور اس کے تاریخی پس منظر پر تنقید بھی ملتی ہے، بسنت کی پہچان پتنگ بازی ہے، لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں اس موقع پر آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھر جاتا ہے اور اس کے ساتھ موسیقی، کھانے پینے اور چھتوں پر محفلوں کا اہتمام ہوتا ہے، روایتی طور پر اسے ’ جشنِ بہاراں‘ بھی کہا جاتا ہے، جس میں لوگ سردی کے جانے اور بہار کے آنے کی خوشی مناتے ہیں، پنجاب، پاکستان میں دھاتی اور کیمیکل ملی ڈور کی وجہ سے موٹر سائیکل سواروں کی گردن کٹنے، بجلی کی تاروں میں شارٹ سرکٹ اور چھتوں سے گرنے جیسے حادثات کے باعث بسنت اور پتنگ بازی پر کئی سال پابندی رہی، عدالتی فیصلوں اور انتظامی اقدامات کے نتیجے میں اس تہوار کو بارہا محدود یا مکمل طور پر ممنوع کیا گیا، جس کا بنیادی جواز انسانی جانوں کا ضیاع اور امن و امان کے مسائل بتائے گئے ہیں۔
بسنت کو اکثر لوگ جان لیوا کھیل اس لیے کہتے ہیں کہ پتنگ بازی کے دوران ہونے والے حادثات سے درجنوں لوگ جان سے جاتے اور سیکڑوں زخمی ہوتے رہے ہیں، بسنت میں پتنگ کا اصل مسئلہ نہیں، بلکہ دھاتی، کیمیکل اور تیز دھار ڈور ہی جو موٹر سائیکل سواروں کے گلے کٹنے، کرنٹ لگنے اور چھتوں سے گرنے جیسے حادثات کا سبب بنتی ہے۔ ماضی میں پنجاب میں انہی حادثات کے باعث کئی ہلاکتیں ہوئیں، جس کے بعد حکومت نے پتنگ بازی اور بسنت پر پابندیاں عائد کیں، پنجاب میں 2006ء کے بعد پتنگ بازی پر سخت پابندی لگائی گئی کیونکہ اسے عوام کے لیے خطرناک اور جان لیوا کھیل قرار دیا گیا،پتنگ بازی جب دھاتی، کیمیکل یا شیشے لگی ڈور کے ساتھ کی جائے اور چھتوں پر چڑھ کر مقابلے ہوں تو واقعی یہ ایک ’ خونی کھیل‘ بن جاتی ہے، کیونکہ ہر سال پاکستان ( خاص طور پر پنجاب) میں اسی وجہ سے درجنوں بچے اور بڑے جان سے جاتے اور زخمی ہوتے ہیں، شیشے اور دھات ملی ڈور ( مانجھا) گردن یا چہرے پر لگے تو آرٹری تک کٹ جاتی ہے، خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کی جان فوراً جا سکتی ہے، لاہور میں ایک ہی سال میں پتنگ ڈور سے کم از کم 25اموات اور تقریباً 50کے قریب زخمیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے تھے، بسنت جیسے فیسٹیولز میں لوگ چھتوں سے گرنے، تاروں سے کرنٹ لگنے اور خوشی میں ہوائی فائرنگ سے بھی مارے جا چکے ہیں، ایک سال میں ایسے مواقع پر 10سے زائد اموات اور سو سے زائد زخمی رپورٹ ہوئے، ان اموات اور شدید زخمیوں کی بڑی تعداد کے بعد پنجاب حکومت نے بسنت اور پتنگ بازی پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے، جسے حالیہ برسوں میں مزید سخت کیا گیا ہے، پولیس ہر سال ہزاروں پتنگیں، سیکڑوں مانجھا والے ریل ضبط کرتی اور ہزاروں افراد کو گرفتار یا جرمانہ کرتی ہے، اس سے واضح ہے کہ ریاست اسے سنگین عوامی تحفظ کا مسئلہ سمجھتی ہے، ایک طرف یہ تہذیبی و ثقافتی سرگرمی سمجھی جاتی ہے، مگر جب اسی کے نتیجے میں بے گناہ بچوں، خواتین و حضرات کی جانیں جائیں تو یہ صریح ظلم، جان کا ضیاع اور شریعت و اخلاق دونوں کے خلاف ہے، اب حکومت بسنت کی مشروط واپسی اور’ محفوظ بسنت‘ جیسے خیالات پر بات کر رہی ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ جب تک خطرناک ڈور اور قانون شکنی پر مکمل کنٹرول نہ ہو، یہ فیصلہ عوام کی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے، بہت سے لوگ بسنت کو ثقافتی، معاشی اور سیاحتی طور پر اہم تہوار سمجھتے ہیں، لیکن مخالفین کے نزدیک کوئی بھی تفریح ایسی نہیں ہونی چاہیے جس کی قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا ہو، بہت سے لوگ اسے ’ خون آلود‘ اور’ جان لیوا کھیل‘ کہہ کر اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پتنگ بازی اور بسنت کو لاہور اور پنجاب کی صدیوں پرانی ثقافتی روایت اور بہار کے استقبالی تہوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جسے مختلف طبقات اپنی شناخت کا حصہ سمجھتے ہیں، مکمل پابندی سے ہزاروں مزدوروں، کاریگروں اور تاجروں کی روزی متاثر ہوتی ہے جو پتنگ اور ڈور کے کاروبار سے وابستہ ہیں، اس پر مختلف سماجی حلقوں نے تشویش ظاہر کی ہے، ناقدین کا موقف ہے کہ مسئلہ’ پتنگ‘ نہیں بلکہ خطرناک ڈور اور قانون پر عمل درآمد کی کمزوری ہے، اس لیے سیدھا حل یہ نہیں کہ ہر طرح کی پتنگ بازی ہی جرم بنا دی جائے، ایسی قانون سازی اور عمل درآمد جس میں شیشے لگی، دھاتی یا کیمیکل ڈور مکمل طور پر ممنوع ہو، صرف روایتی، محفوظ ڈور کی اجازت ہو، اور خلاف ورزی پر سخت سزا دی جائے، مخصوص دن، مخصوص اوقات اور مخصوص کھلی جگہوں ( مثلاً پارکس یا گرائونڈز) میں اجازت، جبکہ چھتوں، تاروں کے قریب علاقوں اور مصروف سڑکوں کے اوپر پتنگ بازی پر سخت پابندی ہو، آگاہی مہمات، سکولوں اور مساجد کے ذریعے یہ شعور دینا کہ انسانی جان کی حرمت کسی تہوار یا تفریح سے کہیں زیادہ اہم ہے، اور جو بھی خطرناک ڈور بیچے یا استعمال کرے وہ معاشرتی و قانونی طور پر مجرم ہو، پنجاب میں ایک عرصے تک مکمل پابندی کے بعد حال ہی میں بسنت اور پتنگ بازی کو’ سخت شرائط کے ساتھ‘ دوبارہ اجازت دینے کی طرف رجحان سامنے آیا ہے، جس میں محفوظ ڈور، محدود جگہ اور کڑی نگرانی کی شرطیں شامل کی جا رہی ہیں، اس پس منظر میں بہت سے ماہرین کی رائے ہے کہ بہترین راستہ’ جان بچانے والی سخت ریگولیشن، محدود، محفوظ پتنگ بازی‘ ہے، تا کہ نہ ثقافت مکمل ختم ہو اور نہ ہی انسانی جانوں کو پہلے جیسا خطرہ لاحق رہے۔

جواب دیں

Back to top button