عمران، فیض حمید گٹھ جوڑ

عمران، فیض حمید گٹھ جوڑ
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل فیض حمید اور سابق وزیراعظم کے درمیان روابط کی قلعی اس وقت کھلی جب قریبا ڈیڑھ سال پہلے بعض اداروں نے سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو ملک محمد اکرم اور ڈی آئی جی جیل خانہ جات راولپنڈی ریجن کے آفس کے ایک ہیڈ کلرک ناظم شاہ کو حراست میں لے لیا تھا۔ با اعتماد ذرائع کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے بانی پی ٹی آئی کے نام خطوط بھیجے جانے کا انکشاف ہونے کے بعد سینٹرل جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور ایک سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو رات کی تاریکی میں حراست میں لے کر انہیں نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ناظم شاہ کے آپس میں خاصے روابط تھے تاہم اس سلسلے میں ایک سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا، جسے ایک سابق آئی جی جیل خانہ جات نے جنرل فیض حمید کا خط بانی پی ٹی آئی کو پہنچانے کو کہا گیا تو اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا تھا وہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہے، اس لئے اب اس کا کسی اندرون جیل کسی اہل کار سے کوئی رابطہ نہ ہے۔ جس کے بعد اسی سلسلے میں جیل میں جیمیرز پر متعین ایک اہل کار کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ چنانچہ مذکورہ کہانی سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد جیل میں بھی عمران خان سے کسی نہ کسی طرح رابطہ ضرور رہا ہے۔
آئی ایس پی آر کی ریلیز کے مطابق جنرل فیض حمید پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے ، سرکاری راز کے قانون کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور افراد کو مالی نقصان پہنچانے سے متعلق چار الزامات ثابت ہونے کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ جنرل فیض حمید کی سزا کی بعد اس بات کی امید کی جا سکتی ہے اداروں کے سربراہان اور دیگر افسران مستقبل قریب میں سیاسی عمل سے دور رہیں گے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو ملکی آئین کسی سرکاری افسر کو سیاسی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ ملک میں تمام ادارے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے فرائض منصبی ادا کریں تو سیاسی جماعتوں کو کسی ادارے کے سیاسی امور میں ملوث ہونے کی شکایت نہ رہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا کیا دھرا ہے، جنہوں نے بعض اداروں میں پولیٹیکل ونگ قائم کرنے کی بنیاد رکھی، جس سے اداروں کو ملکی سیاست میں مداخلت کا موقع ملا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں اپنی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں آئیں اور لوٹ مار سے گریز کریں تو ملک و قوم کی ترقی یقینی بات ہے۔
پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو بعض سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اپنے اقتدار کے دوران ملک کو مقروض رکھا جبکہ اس کے برعکس اپنی تجوریاں بھرنے کی ٹھان رکھی۔ قیام پاکستان سے اب تک کوئی جماعت ایسی نہیں جس نے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کی سعی کی ہو۔ بدقسمتی سے اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت اقتدار سے ہٹائے جانے والی جماعت کو چور اور ڈاکو کے القاب سے نوازتی ہے۔ جہاں تک احتساب کی بات ہے وہ ملک و قوم کا خواب رہے گا۔ ہر آنے والی حکومت نے احتساب کے ادارے قائم کئے، جنہیں وہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا جن جن سیاست دانوں اور افسران نے لوٹ مار کی ہو ان کے خلاف مقدمات ثابت ہونے کے بعد عبرت ناک سزائیں دی جاتیں تو آج ہمارے ملک کا نقشہ اور ہوتا۔ پی ٹی آئی کے بانی نے اپنی انتخابی مہم میں احتساب کا نعرہ لگایا تو عوام اس کے ساتھ ہو لئے، لیکن اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ایک ٹی وی چینل پر عمران خان کا کہنا تھا اسے احتساب کرنے نہیں دیا گیا۔ اللہ کے بندے اگر احتساب کرنے سے کسی نے روکا تھا تو اقتدار میں رہتے ہوئے نام لے کر قوم کو بتایا جاتا فلاں شخص احتساب کرنے سے روک رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا دور ختم ہونے کے بعد جو لوگ اقتدار میں آئے انہوں نے عوام کی خدمت کی بجائے ترجیحی بنیادوں پر احتساب کے قوانین میں ترامیم کرکے اپنے اور ساتھیوں کے خلاف مقدمات ختم کرا لئے۔
ہم جنرل فیض حمید کی سزا بارے بات کر رہے تھے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو سزا یاب ہونے کے بعد اس بات کا قومی امکان ہے بانی پی ٹی آئی کو بھی جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد جیل میں رہتے ہوئے روابط رکھنے کی پاداش میں سزا سنائی جا سکتی ہے۔ جنرل فیض حمید کے ساتھ جیل میں روابط کے انکشاف کے بعد بانی کو سخت حفاظتی انتظامات میں رکھا گیا ہے۔ تین تین سیلوں پر مشتمل تین پہروں میں بانی پی ٹی آئی کو رکھا گیا ہے، حالانکہ سابق وزیراعظم ہوتے ہوئے اس بھی نواز شریف، آصف زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی والی بی کلاس قیدیوں کے لئے مختص جگہ پر رکھا جاتا۔ بانی پی ٹی آئی جو جب سینٹرل جیل اڈیالہ لایا گیا ان دنوں اسد وڑائچ جیل سپرنٹنڈنٹ تھے، جنہیں اصولی طور پر بانی کو بی کلاس قیدیوں کے لئے مقررہ جگہ پر رکھنا چاہیے۔ بانی پی ٹی آئی کے جیل جانے کے بعد اس وہ ساتھی جو ساتھ مرنے کا دم بھرتے تھے تتر بتر ہوگئے۔ ماسوائے چند رہنمائوں، بہنوں اور ورکرز کے اڈیالہ روڈ پر اس کی کابینہ کے ارکان میں سے کوئی دکھائی نہیں دیتا، جو ہماری سیاست کو نوحہ ہے۔ بانی کے دست راست اور نوجوان وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے بانی سے وفا کا دم بھرنے میں تاخیر نہیں کی اور وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اڈیالہ روڈ آئے، روز ڈیرے ڈالنے سے بانی کی رہائی ممکن نہیں، نہ ہی اس سے ملاقات کی امید کی جا سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں پی ٹی آئی رہنمائوں کو بانی، پارٹی رہنمائوں اور پارٹی کارکنوں کی رہائی کے لئے سنجیدگی سے جدوجہد کی ضرورت ہے، نہ کہ ہلہ گلہ کرنے سے مسائل حل ہو ں گے۔ جہاں تک عوام کی بات ہے وہ بانی کے ساتھ ضرور ہیں، لیکن وہ سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں۔





