Column

معجزہ، کرامت، استدراج اور لفظ

معجزہ، کرامت، استدراج اور لفظ
شہرِ خواب
صفدر علی حیدری
انسانی تاریخ کے ہر موڑ پر تین لفظ ایسے رہے ہیں جنہوں نے عقل کو بھی چکرا دیا، دل کو بھی نم کر دیا اور روح کو بھی آزمائش کے دہانے پر لا کھڑا کیا، معجزہ، کرامت اور استدراج۔
معجزہ، جو فطرت کے قوانین کو الٹ کر رکھ دے۔ کرامت، جو دل کی گہرائی کو ایک نئے یقین سے روشن کر دے۔استدراج، جو روشنی کا دھوکہ دے کر انسان کو اندھیروں کی مسلسل وادی میں دھکیل دے۔
یہ تینوں لفظ انسانی ذہن کے تین چہرے ہیں، حیرت، محبت اور دھوکہ۔
مگر ایک ایسا چوتھا عنصر بھی ہے، جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، حالانکہ یہی وہ طاقت ہے جو ان تینوں لفظوں کے معنی بدل سکتی ہے۔ اور وہ ہے لفظ۔
لفظ، جو کبھی خود معجزہ بن جاتا ہے، کبھی کرامت کی طرح دل پر اترتا ہے، اور کبھی استدراج کی طرح انسان کو اپنی بھول بھلیّوں میں گم کر دیتا ہے۔ لفظ پانی کی طرح شفاف بھی ہے، اور سمندر کی طرح بے رحم بھی۔ لفظ پھول کی طرح نرم بھی ہو سکتا ہے، اور تلوار کی طرح تیز بھی۔ یہ کبھی چھائوں بن جاتا ہے، کبھی دھوپ کی تپش۔ کبھی پرسکون جھونکا، کبھی تیز آندھی۔ لفظ کی اسی طاقت نے انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کیا۔ زبان نے نہ صرف انسان کی شناخت بنائی بلکہ اس کی تہذیب، تمدن، تاریخ، یادداشت، رسومات، محبت، جنگ، سیاست، فلسفہ، سب کا مرکز یہی زبان ہے۔
انسان نے سب سے پہلے بولنا سیکھا، پھر سمجھنا، پھر سوچنا، پھر تخلیق کرنا۔ ان سب کا نقطہ آغاز، زبان۔ زبان نہ ہوتی تو نہ مذہب اترتا، نہ محبت بنتی، نہ علم منتقل ہوتا، نہ تاریخ لکھی جاتی، نہ نسلیں جڑتیں، نہ انسان انسان رہتا۔ زبان نے جانور کو آدمی بنایا اور آدمی کو صاحبِ شعور۔ زبان وہ مہربان روشنی ہے جس نے انسانی ذہن کی تاریکی میں پہلا چراغ جلایا ۔ زبان وہ دروازہ ہے جس سے خیالات کی دنیا میں پہلی بار روشنی داخل ہوئی۔ زبان وہ معراج ہے جس نے انسان کو دوسرے انسان تک پہنچایا۔ لفظوں کی دنیا عجب دنیا ہے۔ کوئی چھری ہاتھ میں لے تو سب دیکھ لیتے ہیں، مگر زبان کی چھری نظر نہیں آتی اور اس کی کاٹ کہیں زیادہ گہری ہوتی ہے۔کوئی پتھر مار دے تو زخم دکھائی دیتا ہے مگر ایک تلخ لفظ برسوں تک دکھ دیتا ہے۔
لفظوں کی تاثیر تین دائرے بناتی ہے:
1۔ دل کا دائرہ، جہاں لفظ جذبات کو جگاتے یا سلگاتے ہیں۔ ایک جملہ کسی کے دل کو ہلکا کر دیتا ہے، ایک اور جملہ ساری زندگی کا بوجھ ڈال دیتا ہے۔
2۔ ذہن کا دائرہ، جہاں لفظ خیالات کی تشکیل کرتے ہیں، زاویوں کو بدلتے ہیں، نظریات تراشتے ہیں۔
3۔ عمل کا دائرہ، جہاں لفظ فیصلوں کا رخ متعین کرتے ہیں۔
ایک قائد صرف الفاظ سے قومیں بدل دیتا ہے، اور ایک خطیب صرف دو جملوں میں تاریخ کا دھارا موڑ دیتا ہے۔
دنیا میں جتنے بڑے انقلاب آئے،جتنی بڑی تحریکیں اٹھیں،جتنے بڑے فلسفے تخلیق ہوئے، سب لفظوں کے زور پر آگے بڑھے۔ غالب، میر، اقبال، فیض، شیکسپیئر، ہومر، منٹو، ان سب کا سرمایہ کیا تھا؟ لفظ۔ یہی لفظ ان کا احتجاج بھی بنے، ان کی محبت بھی، ان کی میراث بھی، ان کی جاگیرداری بھی۔ لفظ وہ طاقت ہیں جو ادیب کو سیکڑوں برس بعد بھی زندہ رکھتی ہیں۔ کچھ الفاظ آواز نہیں ہوتے، لمس ہوتے ہیں۔ کچھ جملے صرف پڑھے نہیں جاتے، دل میں اُتر جاتے ہیں۔
ایک سطر، سانس کی رفتار بدل دیتی ہے، آنکھ کی نمی جگا دیتی ہے، اور زندگی کا رخ موڑ دیتی ہے۔
سائنس بھی کہتی ہے: خوشگواری کے جملے endorphinsبڑھاتے ہیں، اور تلخی والے cortisol۔
لفظ صرف ذہن پر نہیں، جسم پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔
اضافہ (A): لفظ سے بڑی طاقت۔۔۔ لہجہ لفظ کے علاوہ ایک اور طاقت ہے، لہجہ۔
لفظ تو سب بول لیتے ہیں، مگر لہجہ وہ ہے جو الفاظ کا باطن کھولتا ہے۔ لہجہ صرف آواز نہیں، احساس، نیت، ثقافت، تربیت اور کردار ہے۔ اسی لیے ایک ہی جملہ دو لوگ کہیں تو معنی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب کوئی ’’ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا‘‘ کہتا ہے، تو یہ چار مختلف مفہوم لے سکتا ہے:
عاشقانہ لہجہ: یہ محبت اور وفا کا وعدہ ہے۔
غصے کا لہجہ: یہ انتقام یا نقصان پہنچانے کی دھمکی ہے۔
سرپرستی کا لہجہ: یہ بھروسہ دلانا اور ذمہ داری اٹھانے کا اعلان ہے۔
طنز کا لہجہ: یہ ماضی کی غلطیوں کا تذکرہ کر کے شرمندہ کرنے کی کوشش ہے۔
لفظ وہی رہتے ہیں، دل بدل جاتا ہے، لہجہ بدل جاتا ہے، اثر بدل جاتا ہے، محبت کی سب سے بڑی علامت بھی لفظ ہیں۔’’ میں تم پر فخر کرتا ہوں‘‘، ’’ تم میرے لئے اہم ہو‘‘، ’’ میں تمہیں چاہتا ہوں‘‘۔ یہ عام جملے نہیں، یہ دلوں کی بستیاں آباد کرتے ہیں۔
اور ایک تلخ جملہ، برسوں کی محبت کو راکھ کر دیتا ہے۔ اسی لیے زبان طاقت ہے، زخم بھی دیتی ہے، مرہم بھی۔ گھر بھی بناتی ہے، برباد بھی کرتی ہے۔ رشتے بھی جوڑتی ہے، توڑ بھی دیتی ہے۔
لفظوں کی دنیا میں رہتے رہتے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑی ذمہ داری اپنی زبان کی حفاظت ہے۔ کہ میرے لفظ روشنی لے کر جا رہے ہیں یا دھواں؟ اور پھر اس ادبی، روحانی اور فکری سفر کے بعد ہم ایک عجیب حقیقت تک پہنچتے ہیں۔
ایک ایسی حقیقت، جو لفظوں سے آگے ہے۔ جو زبان سے بلند ہے۔جو ہر تعلق میں، ہر رشتے میں، ہر فلسفے میں، ہر محبت میں اپنا مقام رکھتی ہے۔ وہ ہے، خاموشی۔
اضافہ (B): خاموشی کی اقسام اور طاقت
خاموشی، لفظوں کا امیر ترین رشتے دار۔ وہ اظہار جو زبان کے بغیر بھی ہو جائے۔ وہ وضاحت جو جملوں سے زیادہ صاف ہو۔ وہ فیصلہ جو دلیلوں کے بغیر ہو جاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہزار لفظ بھی وہ بات نہیں سمجھا سکتے جو ایک لمحے کی خاموشی سمجھا دیتی ہے۔
خاموشی کی بھی کئی زبانیں ہیں:
تعلق کی خاموشی: جہاں دونوں روحیں لفظوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر ایک دوسرے کو سمجھ رہی ہوتی ہیں۔
احترام کی خاموشی: جہاں چھوٹا بڑے کے سامنے، یا طالب علم استاد کے سامنے، یا انسان قدرت کی عظمت کے سامنے جھک کر صرف سنتا ہے۔
غصے اور نفرت کی خاموشی: جہاں انسان اپنے جذبات کو اندر ہی اندر پالتا رہتا ہے اور لفظوں کا رشتہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا ہے۔
دانش کی خاموشی: جہاں کوئی شخص بات کرنے کے تمام زاویوں پر غور کر چکا ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اب کوئی بھی لفظ صورتحال کو مزید بہتر نہیں بنا سکتا۔
کچھ رشتے لفظوں سے ٹوٹ جاتے ہیں مگر خاموشی انہیں بچا لیتی ہے۔
کچھ درد ایسے ہوتے ہیں جنہیں لفظ چھو نہیں سکتے، خاموشی انہیں سنبھال لیتی ہے۔
کچھ سچ ایسے ہوتے ہیں جنہیں زبان پر لایا جائے تو وہ اپنی حرمت کھو دیتے ہیں، خاموشی ان کی حفاظت کرتی ہے۔لفظ دنیا کو بدل سکتے ہیں، خاموشی انسان کو۔
اور آخر میں بات ایک ہی مقام پر آ کر ٹھہرتی ہے، لفظ سے شاید ایک چیز جیت سکتی ہے
اور شاید وہ ہے
خاموشی
اس سے اوپر بس آنسو بچتا ہے
کیا خیال ہے آپ سب کا

جواب دیں

Back to top button