ColumnKashif Bashir Khan

قانون قدرت کے خلاف! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

ایک دن کے بعد 16 دسمبر ہے جو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کا ایسا ناسور ہے جو قیامت تک رستا رہے گا او ریاست پاکستان کے ذمہ داران کی قوم و بنگالیوں سے جو کبھی پاکستان کا مشرقی حصہ ہوا کرتے تھے، کے ساتھ انتہائی زیادتیوں اور ان کے حقوق پامال کر کے ان کے وسائل کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی دردناک کہانی سناتی رہے گا۔آج میں پاکستان بننے کے بعد خواجہ ناظم الدین،حسین شہید سہروردی،شیر بنگال فضل حق،محمد علی بوگرہ اور دوسرے اکابرین سے ہونے والے برے سلوک کے بارے نہیں لکھوں گا کہ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تو پچھلے 51 سال سے کسی نے بھی کچھ نہیں لکھا اور لکھنے اور بولنے والوں کے ہاتھ اور زبانوں پر تالے پڑے رہے اور پھر وہی رسم اور طریقہ اپنایا گیا اور ایک ایسا شخص جو قیام پاکستان کے وقت سائیکل پر محمد علی جناح اور پاکستان کے حق میں عمارتوں اور دیواروں پر ان کے حق میں پوسٹر لگاتا تھا، کو ہم نے اپنا اور بنگالی پاکستانیوں کا حق ماننے پر غدار قرار دے دیا۔یہ وہ ہی شخص تھا جس نے قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا اس وقت ساتھ دیا جب ملک میں پہلا مارشل لا لگا ہوا تھا اور آج کے ایک وفاقی وزیر کے والد غلام دستگیر گوجرانوالہ میں ایک نجس جانور کے گلے میں محترمہ فاطمہ جناح کے نام کی پلیٹ ڈال کر اسے پورے شہر میں گھما رہا تھا۔
اقتدار کے بھوکے تمام ہی سیاستدان محترمہ کی مخالفت میں بدترین آمرایوب خان کی گود میں بیٹھے تھے۔آج جب پیپلز پارٹی کے بانی کی بات کی جاتی ہے تو تاریخ کے اوراق ہمیں پتا دیتے ہیں کہ 1965 کے صدارتی انتخاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی محترمہ فاطمہ جناح کو پاگل عورت کہتے ہوئے کہا تھا
کہ آخر یہ عورت شادی کیوں نہیں کرتی،ایسے بدترین ماحول میں جو شخص محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا اس کا نام شیخ مجیب الرحمان تھا اور اس نے مشرقی پاکستان(جو متحدہ پاکستان کا اکثریتی حصہ تھا)، سے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں جتوایا تھا۔مغربی پاکستان سے من مانی کر کے اور شدید دھاندلی کے ذریعے ایوب خان کو جتوایا گیا اور اس طرح ایوب خان نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو قائد کی ہمشیرہ کو دھاندلی سے ہرا کر اور مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بو کر طوالت دی تھی۔مشرقی پاکستان سے ایوب خان کی صدارتی انتخاب میں ہار کو ایوب خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں تک کبھی نہیں بھلایا تھا اور وہ بنگالیوں کو مختلف توہین آمیز ناموں سے بلایا کرتا تھا۔مختلف حوالوں سے یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ ایوب خان اکثر کہا کرتا تھا کہ کالے بنگالی کب ہماری جان چھوڑیں گے۔جب کسی بھی ملک کے اکثریتی حصہ کو ریاست کے کرتا دھرتا بوجھ سمجھنے لگیں تو پھر اس کا ساتھ رہنا یا الگ ہو جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔شیخ مجیب الرحمان پر اگر تلہ سازش کیس بناکراسے پابند سلاسل کر دیا گیا تھا لیکن پھر تمام اپوزیشن جماعتوں کے اصرار پر اسے گول میز کانفرنس کیلئے رہا تو کیا گیا لیکن اس کانفرنس میں ایوب خان کا شیخ مجیب الرحمٰن
سے رویہ توہین آمیز تھا اور ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمٰن سے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔جس گول میز کانفرنس میں سندھی انتہا پسند اور ولی خان جیسے پاکستان کے دشمن بیٹھے تھے ،اس میں بنگال کے مقبول ترین رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کی تذلیل کو بھی بنگالی عوام دیکھ رہے تھے۔ ملک کے مشرقی اور مغربی حصہ کے درمیان نفرتیں شدید کرنے کا جو آغاز ایوب خان نے کیا تھا جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے اس کی انتہا کر دی۔ہمارے 60 اور 70 کی دہائی کے آمر حکمرانوں نے تاریخ پڑھنی بھی گوارہ نہیں کی کہ بنگالی تو وہ قوم تھے کہ جنہوں نے ہمیشہ اپنے حقوق کی جنگ لڑی اور مرہٹوں کے خلاف بھی بنگالیوں کی مزاحمتی جنگ تاریخ کی ایک انمٹ حقیقت ہے۔بنگالیوں کی قیام پاکستان کیلئے جدوجہد اور انگریزوں کے خلاف جنگ تاریخ ہے۔انگریزوں نے آزادی پاکستان سے بہت قبل بنگالیوں کی فوج اور سرکاری اداروں میں بھرتی پر پابندی لگائی ہوئی تھی جو اس تاریخی حقیقت کا شاخسانہ ہے کہ انگریز اگر خوفزدہ تھا تو بنگال کے مسلمانوں سے، کہ وہ ان کے ماضی سے آگاہ تھالیکن آزادی کے بعد ہم نے جو کچھ مشرقی پاکستان میں کیا وہ کسی بھی مہذب ملک میں نہیں کیا جاتا۔ لاٹھی گولی کی سرکار نے بالکل اسی طرح مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو چلایا یعنی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘جیسا انگریز کیا کرتا تھا۔اگر مشرقی پاکستان اپنے حقوق مانگتا تھا تو سے دینے میں کیا قباحت تھی؟آئین پاکستان میں جو اٹھارویں ترامیم بھٹو کی پارٹی اور نون لیگ نے
2011 میں کیں ان میں اور شیخ مجیب الرحمن کے چھ پوائنٹس میں تھوڑا ہی فرق تھا۔جواد ساجد خان جو دنیا میں بڑے دل کے بڑے سرجن مانے جاتے ہیں، کی برسوں پہلے کہی یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے کہ اگر مریض کے بچنے کے پانچ فیصد بھی چانس ہوں تو میں آپریشن کرنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ ویسے بھی تو مریض کو موت کے حوالے کیا جا رہا ہوتا ہے۔اسی طرح اگر مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے سے بچانا ہوتا تو مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن کی بجائے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ مذاکرات کر کے اس کے چھ نکات پر بات کی جاتی اور متحدہ پاکستان بچ جاتا۔مجھےیقین ہے کہ اگر شیخ مجیب اور مشرقی پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا تو چھ نکات پر شیخ مجیب الرحمان ہارڈ لائنر نہ بنتا۔جب مشرقی پاکستان اور ان کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو یقین ہو گیا کہ ان کے مینڈیٹ پر فوجی جنتا ڈاکہ مار رہی ہے اور اقتدار ان کے حوالے نہیں کیا جا رہا تو پھر ان کے موقف میں سختی قدرتی تھی۔اگر 2011 میں دو سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات اور کرپشن چھپانے کیلئے اٹھارویں ترمیم لاکر صوبوں کو لا محدود خودمختاری دے کر وفاق کو کمزور کر سکتی ہیں تو ملک بچانے کیلئے شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات پر 1971 میں حقیقی مذاکرات کی بجائے ملٹری آپریشن کا فیصلہ کیوں کیا گیا اور یہ فیصلہ کس نے کیا؟اگر نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بنانے کیلئے اٹھارویں ترمیم ہو سکتی ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان کو بچانے کیلئے شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات پر بات کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟ان سوالوں کے جوابات آج 51 سال کے بعد بھی کوئی بھی دینے سے عاری و انکاری ہے جبکہ ایک فضول بحث ہر سال چھیڑ دی جاتی ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارت کی قید میں 95 ہزار قیدیوں میں سے فوجیوں کی تعداد 32 یا 34 ہزار تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 95 ہزار جنگی قیدی تمام کے تمام پاکستانی تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان گزرے 51 سال ہو چکے لیکن ہم نے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج بھی ملک میں غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کئے جا چکے ہیں اور عوام کے مینڈیٹ کو مختلف اداروں کی طاقت سے روکنے اور اپنے من پسند لوگ حکومت میں لانے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں پر ایران اور افغانستان عالمی طاقتوں کی مدد سے گھات لگائے بیٹھا ہے اور ہم غافل ہیں۔ آج ملک عزیز کے حالات نہایت مخدوش ہیں۔ معاشی اور سیاسی تباہی پاکستان کے درودیوار پر بال کھولے سو رہی ہے اور حکمرانوں کو صرف اور صرف اپنا اقتدار اور ملک و قوم کے لوٹے ہوئے اربوں، کھربوں روپے کے کیسز ختم کروانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔آج پھر ملک میں اپوزیشن کو غدار اور چور کہنے کی رسم زور و شور سے سر اٹھا چکی ہے اور میرا دل کانپ اٹھتا ہے کہ ماضی میں بھی ہم نے شیخ مجیب الرحمٰن کو غدار قرار دیا تھا اور پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے مدتوں ہمیں دنیا کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔پاکستان کے عدلیہ سمیت تمام طاقتور اداروں نے اگر اب بھی حالات کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تو پھر سانحات کوجنم لینے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا کہ جس طرح ملکی دولت لوٹنے والے پاکستان میں نہ صرف واپس آ چکے ہیں بلکہ مقدمات ختم کروا کر اقتدار پر بھی قابض ہو چکے ہیں وہ قانون قدرت کے یکسر خلاف ہے اور قانون قدرت کے خلاف چلنے کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button