ColumnQaisar Abbas

حضرت سلطان باہوؒ کی دہلیز پر ۔۔ قیصر عباس صابر

قیصرعباس صابر

 

ہر سو عشق اور تصوف کی فضائیں تھیں جن میں کبوتروں کی اللہ ھو صوفی رنگ بھرتی تھیں ۔ طرح طرح کے لوگ اپنے اطمینان کی جھولی اپنی استعداد کے مطابق بھرنے کیلئے آئے تھے ۔ دربار کا وسیع صحن سنگ مرمر کی سرد ہو چکی سلوں سمیت خالی خالی تھا ۔ مزار سلطان باہوؒ کا دروازہ مقفل تھا ۔ سجادہ نشین شاید بے خبر تھا کہ صوفی کا فیض مقفل نہیں ہوتا ۔ دربان نے بتایا کہ نماز کے اوقات میں زائرین اندر داخل نہیں ہو سکتے ۔ ہم نے استفسار کیا کہ بھلا شاعر اور صوفی بھی اپنے فیض میں تعطل ڈال سکتا ہے ؟ وقت وقت کی بات ہے کہ صوفی کو بادشاہت ، شاعر کو ولی اور صاحب نظر کو جادو گر بنا کر متعارف کیا جاتا ہے ۔
دربار کے عقب میں بیری کا درخت تھا جہاں مردوں کا جانا سختی سے ممنوع قرار دیا گیا تھا ۔ بے اولاد عورتیں جھولیاں پھیلا کر بیر گرنے کی منتظر تھیں کہ اگر بیر ان کی جھولی میں آ گرے تو بیٹا پیدا ہوتا ہے اور اگر صرف پتہ گرے تو بیٹی پیدا ہوگی، ایسی باتیں صدیوں سے سینہ بہ سینہ سفر کر رہی تھیں ۔ ہم مگر ایک ایسے شاعر اور صوفی کی دہلیز پر آئے تھے جو علم پر عشق کو فوقیت دیتے تھے ۔ وہ عالم پر عاشق کے وزن کو کامیابی کی کنجی گردانتے تھے ۔
پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں عالم ہوئے بھارے ہو
حرف اک عشق دا پڑھ نہ جانن بھلے پھرن وچارے ہو
اک نگاہ جے عاشق ویکھے لکھ ہزاراں تارے ہو
لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے نہ کدھی چاڑھے ہو
عشق عقل وچ منزل بھاری سوآں کوہاں دے پاڑے ہو
جنہاں عشق خرید نہ کیتا دوہیں جہانیں مارے ہو
ہم ملتان سے نکلے تو پہلا پڑاؤ ہی دربار سلطان باھو تھا ۔ دریائے چناب ، احمد پور سیال اور رنگ پور بھی ہمارے قدم نہ روک سکا اور ہم گڑھ مہاراجہ کی طرف بڑھتے رہے۔ منزل سلطان باھو سرکار نہ ہوتے تو ہیر کا تھل اور رنگ پور کی ریت چند لمحے گزارنے کیلئے ایک محبت بھرا لمس تھی۔ جھنگ مظفر گڑھ روڈ سے نیچے اترے تو دربار سلطان باہو زیادہ دور نہ تھا ۔ ذہن میں ان کا کلام گونجتا تھا اور زائرین کلام سے بے بہرہ صرف فرمادیں اور منتیں لئے چلے آتے تھے۔ جوتے اتارنے کی جگہ سے لے کر دربار تک جا بہ جا مٹی اور گارے کے ڈھیر تھے جو سجادہ نشینوں کی بے ترتیب عمل داری کا منہ بولتا ثبوت تھے ۔ کہ اگر انہیں کلام باہو ازبر ہوتا تو وہ کامل مرشد کے’’لوں لوں‘‘ سے وقف ہو کر ان کے سبق کو فراموش نہ کر چکے ہوتے ۔
کامل مرشد ایسا ہووے جو دھوبی وانگوں چھٹے ہو
نال نگاہ دے پاک کرے نہ سجی صابن گھتے ہو
میلے نوں کر دیندا چٹا ذرا میل نہ رکھے ہو
ایسا مرشد ہووے جہڑا لوں لوں دے وچ وسے ہو
ہم ایمان کی سلامتی کا مدعا لئے پھرتے وہاں پہنچے تو عشق سلامت کا سبق سکھایا گیا ۔ عشق جی ہاں ، وہی عشق جو مجازی اور حقیقی کے فرق سے ماورا ہو ۔
زندگی اور امید کے دروازے بند ہو جائیں تو انسان بائی پاس تلاش کرتا ہے اور کبھی چور دروازوں سے جھانک کر وقتی طور پر آس کی جھوٹی کرن کے تعاقب میں مارا مارا پھرتا ہے ۔ مسلسل ناکامیاں انسان کو اس قدر اپنا عادی کر دیتی ہیں کہ مطمئن نظر آتا آدمی لوگوں کیلئے درویش کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے ۔ کسی پیارے کی تکلیف اسے ڈاکٹر ، حکیم ، ہومیو معالج ، پیر فقیر اور درگاہوں پر لئے پھرتی ہے ۔ یہی تجربات مجبور انسان کو حوصلے کے ہمالیہ پر کھڑا کر دیتے ہیں ۔ مریض شفا یاب ہو یا نہ ہو مگر اس کو ساتھ لئے پھرنے والا صوفی بن جاتا ہے ۔اس کے بعد وہ پیروں ، حکیموں اور معالجوں کی شعبدہ بازیاں جانتے ہوئے بھی چپ رہتا ہے۔ یہی چپ اس کی منزل کا پہلا زینہ ہوتی ہے ۔ صبر ، شکر اور خاموشی جیسے ہنر انسان پر برداشت کے تمام راستے ہموار کر دینے کے بعد ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو پھر آدمی مستقبل میں جھانک سکتا ہے ، چہرے پڑھ سکتا ہے اور ٹیلی پیتھی کا عالم ہو جاتا ہے ۔ہم چپ چاپ ان کی دہلیز پر بیٹھے سبق عشق کو مفاہیم میں تولتے رہے اور سلطان باھوؒ تو شعور سے بالا تر ہو کر عشق کا سبق پڑھاتے ہیں ۔
ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو
جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان خبر نہ کوئی ہو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو
عشق سلامت رکھیں باہوؔ دیاں ایمان دھروئی ہو
عون عباس اور آیت زہرا میرے ساتھ ساتھ تھے ۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ اس کنویں کو دیکھنے کیلئے اک دوسرے پر ٹوٹ پڑے تھے جس میں کرنسی نوٹ تصوف کے سبق پر قہقہے لگاتے تھے ۔ یہاں پر آنے والے لوگوں کو کلام باہوؒ سنانے یا ان میں صوفیانہ شاعری کی کتب تقسیم کرنے کا خیال کسی کو نہیں آیا اس لئے لوگ اتنے بڑے عشق کے مبلغ کی تعلیمات سے ناواقف تھے ۔
شام ڈھلنے سے ذرا پہلے ہم واپسی کیلئے نکلے تو گاڑی کے میوزک پلیئر پر سلطان باھوؒ کی شاعری سورج کی شکست کھاتی کرنوں کو نئی صبح کو نوید دیتی تھی۔ عشق رگوں میں دوڑتے لہو کو حدت عطا کر رہا تھا۔
کن فیکون جدوں فرمایا اساں بھی کولے ہاسے ہو
ہکے ذات صفات ربے دی ہکے جگ ڈھوندیاسے ہو
ہکے لا مکان اساڈا ہکے بت وچ پھاسے ہو
نفس شیطان پلیتی کیتی اصل پلیت تاں ناسے ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button