Columnمحمد مبشر انوار

عقل و حکمت یا ضد و انا ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

بحرانوں کی زرخیز ترین سرزمین پاکستان میں ایسے ایسے معاملات بحران بن جاتے ہیں کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں یہ معمول کی کارروائی تصور ہوتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم ایسے معاملات کو بھی مشکل ترین بنا کر،باہم دست و گریباں ہوکر، ساری دنیا میں نشر کرکے اس کا حل تلاش کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ حل انتہائی سادہ اور سامنے نظر آتا ہے اور بآسانی معمول کی کارروائی میں ہونا چاہیے لیکن ہماری ذاتی مفادات یا مخالفین کو نیچا دکھانے کی خواہش اس پر غالب آتی ہے اور جب تک مخالف کو تڑپایا نہ جائے،فیصلہ کرنے میں لطف نہیں آتا۔ ایسی کیفیت کو کسی بھی صورت مہذب یا بالغ نظری نہیں کہا جا سکتا لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ ہم میں ہر شخص کسی نہ کسی حوالے یا کسی نہ کسی حیثیت میں اسی روئیے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے،خواہ معاملات ذاتی ہوں،خاندانی ہوں،دفتری ہوں یا ملکی ہوں۔ جہاں زور چلتا ہے، جہاں اختیار ہوتا ہے،طاقت کا اظہار کیا جا سکتا ہے، زور آور،بااختیار اور طاقتور، ذاتی پسند و ناپسند کو ترجیح دیتا نظر آتا ہے اور ہر صورت اپنی مرضی مسلط کرتا نظر آتا ہے،استحقاق نام کی چیز،’’جوتے کی نوک‘‘ پر رکھی جاتی ہے کہ طاقتور کا اشارہ ابرو ہی اس ملک میں قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ بصد احترام !آئین و قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا لیکن پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون اپنی پوری شدومد کے ساتھ گذشتہ کئی دہائیوں سے بروئے کار ہے اور اس کو ختم کرنے کیلئے جب تک طاقتور از خود اپنے اختیار سے پیچھے نہیں ہٹتے یا جوابدہی کا قانون بلاامتیاز لاگو نہیں ہوتا ،ممکن نظر نہیں آتااور طاقت سے دستبرداری اتنا آسان نہیں ۔سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار رہا ہے جس سے فوج رواں سال فروری سے کنارہ کش ہو چکی
ہے اور بطور ادارہ اس کا حتمی فیصلہ ہے کہ وہ سیاست میں مزید مداخلت نہیں کرے گی۔ اس بیان پر یقین کرنا اتنا ہی مشکل نظر آتا ہے کہ جتنا دن کی روشنی کو رات سے تعبیر دینا ہو کہ فروری سے شروع ہونے والا سیاسی کھیل ،اس وقت پاکستان کی سیاست کو ایسی بے یقینی کی فضا میں دھکیل چکا ہے کہ اس سے نکلنے کیلئے فہم و فراست کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات و دباؤ سے اوپر اٹھ کر ہی نکلا جا سکتا ہے،جس کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی میدان میں جاری کشمکش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کہ 26نومبر تک سیاسی اکھاڑہ سڑکوں پر نظر آیا اور اب یہ سیاسی جنگ اسمبلیوں میں ہوتی نظر آ رہی ہے کہ رجیم چینج کا مؤقف اپنائے عمران خان نے اپنی حمایت میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے جبکہ بظاہر آئینی طریقے سے حکومت میں آنے والی حکومت مسلسل عوامی حمایت سے محروم نظر آتی ہے۔موجودہ حکومت بظاہر آئینی و قانونی طریقے سے اقتدار میں آئی ہے لیکن کیا موجودہ حکومت او راس میں شامل اتحادی سیاسی اعتبار اور ذہنی طور پر یکجاہیں یا درون خانہ ایک دوسرے کے خلاف مسلسل بر سر پیکار ہیں؟
کل تک پاکستانی سیاست میں دو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہتی رہیں،ملک وقوم کا لوٹا ہوا مال واپس لینے کے دعوے عوامی اجتماعات میں کرتی رہیں لیکن آج یہ سیاسی جماعتیں باہم شیر وشکر اور ایک دوسرے کی لوٹ مار کو باقاعدہ قانونی تحفظ دیتی نظر آتی ہیںجبکہ دیگر علاقائی جماعتوں کا کردار آج بھی بیساکھیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان علاقائی سیاسی جماعتوں کو بوقت ضرورت کھڑا کیا جاتا ہے، ان کو ایک مخصوص ٹاسک دیا جاتا ہے ،اکثریتی جماعت کے ساتھ جوڑتوڑ کرتے ہوئے حصہ بقدر جثہ سے بھی نوازا جاتا ہے اور حکومتیں گرانے کیلئے بھی ان علاقائی جماعتوں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔منقسم مینڈیٹ والی اسمبلیوں کے سروں پر یہ تلوار دانستہ لٹکائی جاتی ہے تا کہ برسراقتدار سیاسی جماعت متعین کردہ کردار سے باہر نکل سکے اور اپنے اقتدار کیلئے ہمیشہ سر جھکا کر رہے۔اس پس منظر میں سیاسی حکومتوں نے ملکی مفادات کے برعکس ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات کئے اور پالیسیاں بنائیں،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان خاکم بدہن، کسی بھی وقت ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ملکی وسائل ایک طرف ایسے منصوبوں پر صرف کئے گئے کہ جس سے فقط نمائش ترقی مقصود تھی یا عوام کو یہ تاثر دینا تھا کہ حکومت عوام کیلئے بہت کام کر رہی ہے لیکن درحقیقت قرض کی مے پر ملک کو مزید مقروض کیا جاتا رہا، مقامی صنعت اور صنعتکاروں کیلئے حالات مخدوش کئے جاتے رہے،غیر ملکی مصنوعات کیلئے دروازے کھولنے کا کام کیا گیا۔ اس کی چھوٹی سی مثال سی پیک پر بننے والے اکنامک زونز میں غیر ملکی صنعتکاروں کو دی جانے والی بے شمار مراعات ایسی ہیں کہ جن کی بدولت مقامی صنعت کیلئے ممکن ہی نہیں کہ اس کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ان اکنامک زونز کو لانچ کرکے غیر ملکی بالعموم اور چین کے صنعتکاروں کو بالخصوص دس سال کیلئے ٹیکس چھوٹ،مشینری کی برآمد پر کسٹم چھوٹ جیسی مراعات کے ساتھ ساتھ ماہرین کیلئے ویزوں کا اجراء جبکہ پاکستانیوں کیلئے ان اکنامک زونز میں فقط مزدوری کی سہولت،کس طرح ملکی معیشت کو مضبوط بنا سکتی ہے؟
بہرکیف تحریک انصاف کی گذشتہ حکومت میں پاکستان کی صنعت نے قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ اس میں دیگر عالمی عوامل کے ساتھ ساتھ حکومتی توجہ اور اقدامات نے پاکستانی صنعت کاپہیہ گھمانے میں اہم ترین کردارادا کیا۔ پاکستان کی شرح نمو کئی دہائیوں کے بعد ،کرونا وبا کے باوجود ،چھ فیصد تک پہنچی،عالمی اداروں نے پاکستانی معیشت پر اطمینان کا اظہار کیااور اس کے درست سمت ہونے پر مہر ثبت کی لیکن ہواکیا؟عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کے اقدمات کئے گئے ،حالانکہ معاشی بہتری کیلئے عمران حکومت کے سخت فیصلوں کے باعث عوامی حمایت پہلے ہی کم ترین سطح تک پہنچ چکی تھی لیکن اس دھکے کے بعد تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران کو نادانستہ کمک دی گئی اور آج عمران پاکستانی سیاست میں بلا شک و شبہ سب سے مقبول ترین رہنما بن چکا ہے۔ عمران خان نے اقتدار سے الگ ہوتے ہی ایک مطالبہ ،ایک مؤقف اپنایا کہ اس کی حکومت کو سازش کے ذریعے گرایا گیا ہے اور اسے صاف و شفاف انتخابات چاہئیں،حقیقت بھی یہی ہے کہ مئی میں پی ڈی ایم حکومت کسی حد تک نئے انتخابات کیلئے تیار تھی،جو اس کیلئے بھی فائدہ مند ہوتے کہ عمران کی پذیرائی اس سطح تک نہ پہنچی تھی اور نہ ہی حکومت کی اہلیت و مقاصد اس قدر آشکار ہوئے تھے،جتنے آج ہو چکے ہیں۔ بعد ازاں حکومت ’’مجبوری‘‘ کے باعث اپنی اس خواہش کی بجائے ’’کسی‘‘اور کی خواہش کے تابع انتخابات سے منکر تو ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کو انگیخت کرتی رہی کہ اگر نئے انتخابات کا اتنا شوق ہے تو پنجاب،خیبرپختونخواحکومتیں تحلیل کرکے نئے انتخابات کیلئے مجبور کردو۔اس وقت بیشتر سیاسی پنڈت عمران کو یہی مشورے دیتے نظر آئے کہ اگر واقعتاً عمران کو نئے انتخابات کروانے ہیں تو پنجاب اورخیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرکے حکومت کو نئے انتخابات پر مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عمران اپنی ساکھ مجروح کررہا ہے اورخود کو اقتدار پرست ثابت کرر ہا ہے۔ آج!عمران خان نے دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب جنرل قمرجاوید باجوہ فوج سے رخصت ہو رہے ہیں،نئی فوجی قیادت سامنے آ رہی ہے اور عمران کو بالخصوص پنجاب میں اب یہ خطرہ محسوس نہیں ہو رہا کہ اتحادی کسی کے اشارے پر اپنی وفاداری تبدیل کر لیں گے۔دوسری اہم بات کہ اب سیاسی میدان انتہائی واضح نظر آ رہا ہے اور کوئی بھی اتحادی ،جو عمران کے ساتھ ہے، ایسے وقت میں عمران کو دھوکہ دے کر اپنی سیاست کا جنازہ نکالنے کی کوشش نہیں کرے گا۔وفاقی حکومت کی جانب سے تحریک عدم اعتمادیا گورنر راج جیسی چالیں بھی ناکام ہی نظر آتی ہیں اور ان دو اسمبلیوں کے تحلیل ہونے ،دیگر صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بعد کا منظر نامہ بظاہر ضمنی انتخابات کیلئے سازگار نظر نہیں آتا بالخصوص جب اسمبلیوں کی مقررہ مدت میں سات؍آٹھ ماہ باقی ہوں،تاہم یہ ضرور ممکن ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے پر ان صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب کروا دیا جائے جبکہ دیگر صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کا انتخاب مقررہ مدت پر کروایا جائے۔دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان موجودہ صورتحال میں،بعد از اسمبلیوں کی تحلیل اور استعفوں،عقل و حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’جنرل الیکشن‘‘ کی طرف جاتے ہیں یا ’’جنرل‘‘ضد و انا کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقررہ مدت پوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button