Ali HassanColumn

سیلاب اور عوام کی مجبوریاں .. علی حسن

علی حسن

 

جون کے آخری اور جولائی کے پہلے ہفتہ میں لوگ خصوصاً کاشت کار پانی پانی کا پر زور مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کی فصلیں خراب ہو رہی تھیں۔ ضرورت کے مطابق پانی نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ رہی تھیں۔ ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بھر مار تھی۔ ابھی احتجاجوں کا سلسلہ جاری تھا کہ بارشوں کا ایسا طویل سلسلہ شروع ہو گیا جس نے ہر طرف جل تھل کر دیا اور جس بات کا خوف اور اندیشہ تھا وہ ہی ہوا۔ پورا صوبہ سندھ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ انسانوں کی بہت بڑی تعداد بے گھر ہوگئی ہے۔ ایسی بے گھر ہوئی کہ نہ پانی ہے، نہ روٹی ہے، نہ سرپر سایہ ہے۔ بارشوں کا نہ رکنے اور نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی ضلع ایسا نہیں جہاں انسان پانی سے نبرد آزما نہ ہوں۔2011 میں بھی بارشوں کی وجہ سے اسی طرح کا سیلاب آیا تھا لیکن وہ دریا سندھ کے بائیں کنارے پر تھا۔ لیفٹ بنک پر جو بھی اضلاع تھے تمام کے تمام پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور انسانوں نے زندہ رہنے کے لاکھ جتن کئے اور حکومت کی بھاگ دوڑ بھی نظر آئی۔ 2022 میں دیکھنے کو یہ ملا کہ 2011 میں جہاں جہاں کمزوریاں تھیں، حکمت عملی میں نقائص تھے۔ منصوبہ بندی کمزور تھی و ہی سب کچھ 2022 میں موجود ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ ناقص حکمت عملی، ناقص منصوبہ بندی، انتہائی غیر معیاری تعمیراتی کام، ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی کے انتظار میں بیٹھے رہنا اور مدد کا انتظار کرنا۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ ہی سوچنا ہوگا۔ کہاں کمزوری ہے۔ لوگ 2011کی طرح ہی سڑکوں کے کنارے بے آسرا کیوں پڑے ہیں۔ یہ بے سہارا کیوں ہیں۔

معصوم بچے ، خواتین ہاتھ پھیلا کر روٹی روٹی کیوں کر رہے ہیں۔ کیا ان انسانوں کے لیے حکومتوں کے پاس کچھ بھی نہیںہے۔ برستی بارش سے بچائو کے لیے اپنے اوپر ڈالنے کے لیے پلاسٹک درکار ہے لیکن وہ میسر نہیں۔ ترپال چاہیے جس کے بارے میں وزیر اعلیٰ کہہ چکے کہ حکومت کے پاس جو تھے وہ تقسیم کر دیئے ہیں، بقایا کے لیے آرڈر دیا ہے۔ پھر روٹی کہیں دی گئی، پینے کے لیے پانی نہیں۔ پانی چاروں طرف موجود تو ہے لیکن پینے کے قابل نہیں۔ انسان اور جانور پیاس سے بلبلا رہے ہیں۔ ترپال ختم ہو گئے، بازار میں پلاسٹک کی قیمتوں میں دکانداروں نے من مانا اضافہ کر دیا ہے۔ متاثرین کے منتخب نمائندے کہاں اور کیوں غائب ہو گئے ہیں۔ لوگ یہ نعرہ کیوں لگا رہے ہیں کہ امیر بنگلوں میں اور غریب سڑکوں پر۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ عوامی نمائندے ، ارب پتی سیاسی رہنماء اپنی اپنی جیبیں ڈھیلی کرنے کے لیے تیار نہیں ،کسی نے دھیلہ ابھی تک نہیں دیا۔ بہت تاخیر سے حکومت نے اعلان کیا کہ سرکاری افسران سے ایک
ایک ماہ کی تنخواہ کاٹی جائے گی اور نچلے درجے کے ملازمین سے دو دو روز کی تنخواہ رکھوائی جائے گی۔ عوام کے منتخب نمائندے پھر بھی غائب ہیں۔ اتنی دولت نہ جانے کہاں لے کر جائیں گے۔ سینے سے لگا کر کب تک رہیں گے۔ دولت بھی عجیب چیز ہے کہ اس کی محبت ہے کہ دل سے نکلتی ہی نہیں۔

حکومت نے بھی دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا۔ پہلے اپنی جیبوں کو ڈھیلا کرنا چاہیے تھا پھر دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلاتے۔ کیا دنیا اسی لیے ہے کہ پاکستان کی ہر ہر موقع یا ضرورت پر مدد کرے اورپاکستان کے حکمرانوں نے قبل از وقت اپنا انتظام کیوں نہیں کیا۔

جہاں جہاں سرکاری حکام اور مخیر حضرات پہنچ رہے ہیں ، وہاں حکمت عملی میں نقص ہی نقص ہیں۔ بھلا پلاسٹک کی تھیلی میں پائو بھر پکے ہوئے چاول (بریانی) تو جس کو ملی اس کا ایک وقت تو پیٹ بھر گیا لیکن پینے کے لیے پانی نہیں ملا۔ سڑکوں کے کنارے پڑے ہوئے لوگوں کو رات کے وقت بارش سے بچائو کے لیے قریبی پٹرول پمپ والوں نے بھی سر چھپانے اور پناہ لینے کی اجازت نہیں دی۔ ایسے عجیب منظر دیکھنے کو ملے کہ دل دہل گیا کہ کیا اپنے بھی اپنوں کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں۔ سڑکوں کی کنارے پڑے ہوئے لوگوں کی اکثریت کاشت کاری کا کام کرتی ہے لیکن ان کے زمیندار ضرورت کے اس آڑے وقت میں انہیں پناہ دینے یا کسی قسم کی سہولت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔ 2011 میں بھی زمینداروں نے اپنے ہاریوں سے کہا تھا کہ جہاں جا سکو چلے جائو، ہم پناہ نہیں دے سکتے۔ اسی کے بعد بے گھر لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے نوکوٹ میں ریگستانی میدان میں پناہ لی تھی۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا گیاہے۔
کہاں گئے حکومت کے انتظامات اور حکومت کے افسران؟ کیا ضلع میں ڈپٹی کمشنر وں کی ذمہ داری نہیں کہ اپنے اپنے ضلع میں ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کر سکیں، یہ کون تسلیم کرے گا کہ ڈپٹی کمشنرکو انتظام کرنا چاہیے اور انتظام نہ ہو سکے۔ دو تین اضلاع کے ڈپٹی کمشنر حضرات نے البتہ بلاشبہ اپنی تمام تر توانائی لوگوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دی۔

حیدرآباد کے ڈپٹی کمشنر فواد سومرو، شہداد کوٹ کے ڈپٹی کمشنر جاوید نبی کھوسو، تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر نواز سہوہو بلا شبہ ایسے افسران ہیں۔ سوشل میڈیا نے تو اچھے برے سب ہی کا کچا چٹھا کھو دیا۔ سیاسی رہنمائوں کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کو دیکھ لیں کہ خلق خدا ان کی یا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ حال ہی میں جب وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ٹھٹھہ سے سکھر تک سفر کیا تو انہیں ہر جگہ کہنا پڑا کہ پانی نکالنے کا انتظام تو کرو، موٹروں کا انتظام کریں۔ ہمارے شہروں میں 30 سے 40 ملی میٹر پانی نکالنے کی صلاحیت ہے لیکن جب 300ملی میٹر بارش ہوگی تو پانی نکانے میں تو وقت تو لگے ہی گا۔ حیران کن بات ہے کہ کہیں بھی نکاسی آب کا بندوبست نہیںکیا جا سکا ،کوشش ہی نہیں کی گئی، بارش زیادہ تھی، سارے پانی کی نکاسی ممکن نہیں تھی لیکن ایسی کیا مجبوری تھی کہ عبادت گاہیں، علاج معالجہ کے مراکز، تعلیمی اداروں وغیرہ کو تو محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ ان کے اطراف میں پانی کھڑا ہی نہ ہونے دیا جاتا۔ نکاسی آب میں ناکامی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پانی کی نکاسی کے تمام راستوں پر تو تعمیرات کر دی گئی ہیں، تجاوزات ہو گئی ہیں۔ پانی جائے تو کہاں جائے۔ پھر سم نالہ مختلف مقامات پر ابل پڑا اور پانی شہروں میں داخل ہو گیا۔ اس نے گھروں کا بھی رخ کیا۔ مکینوں کی بے بسی کا افسوس ناک عالم ہے۔ ناجائز تجاوزات کو تو قبل از وقت ہی منہدم کرایاجا سکتا تھا ۔ بارش اچانک اس لیے نہیں آئی کہ محکمہ موسمیات تو بارشوں کے سلسلے سے بہت قبل سے وارننگ اور الرٹ جاری کر چکا تھا یا کر رہا تھا۔ جن کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، انہوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا۔ اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہوتا تو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو کیوں احکامات دینے پڑتے۔ ان کے احکامات کی روشنی میں سندھ ہائی کورٹ نے سندھ کے تمام ڈسٹرکٹ و سیشن جج صاحبان کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں بارش و سیلاب متاثرین میں ریلیف کے کاموں اور امدادی سامان کی تقسیم کی خود نگرانی کریں اور روز انہ کی بنیاد پر امدادی سامان کی تقسیم سے متعلق تفصیلی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کو بمعہ تصاویر و وڈیوز تحریری طور پر بذریعہ ای میل ارسال کی جائیں تاکہ سندھ میں جاری امدادی ریلیف کے کاموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جا سکے۔ ہمارے حالات کے بارے میں ہی شاید شاعر نے کہا

تجھ کو معلوم نہیں غم کی حقیقت ورنہ
تو میرے ساتھ بھرے شہر میں ماتم کرتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button