ColumnNasir Sherazi

صف ماتم ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

اے کریم اللہ۔ ارضِ پاک پر رحم فرما۔ ہم گناہ گار اور خطا کار ہیں ہم جیسے ہیں تمہارے فرمان کے مطابق ہمارے حکمران بھی ہم جیسے ہیں۔ رحمت باراں ہماری اور حکمرانوں کی کوتاہیوں سے زحمت کا روپ دھار گیا ہے۔ ہم کیا ہماری اوقات کیا، تیرے سامنے ہم ذرہ بھی نہیں، تو بادشاہ ہے تو حاکم ہے، تو ہی زمین و آسمان کا مالک ہے۔ کرم کر دے اپنی مخلوق پر،تیرا وعدہ ہے کہ تو ہماری طاقت سے بڑا امتحان نہیں لیتا۔ یہ سیلابی امتحان ہم سے دیا نہیں جا رہا،اس لیے کہ ہم نالائق ہیں،ہم نے تیری دی ہوئی عقل اور وسائل سے وہ کچھ نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ پانی زندگی ہے، ہم نے اس کی قدر نہیں کی، اے زندگی اور موت کے مالک کریم اللہ ہماری غلطیوں کو درگزر فرما، ہمیں معاف کر دے پانی بھی موت بن گیا ہے۔ اے رحمان و رحیم ہمیں ہمت دے کہ ہم ان مصیبت کی گھڑیوں میں تیرے غضب کو پہچان کر اپنے آپ کو بدل سکیں۔ اے مالک جان و جہاں تو نے اپنے بندے کو اَن گنت نعمتوں سے نوازا،کچھ کر گزرنے کے لیے دن اور آرام کے لیے رات بنائی لیکن ہم تو تیری رحمت اور نعمت پانی کے سامنے کھڑے ہونے کی بھی سکت نہیں رکھتے، تیرے کرم اور مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ پھر بھی آدم زادے جنہیں تونے نواز دیا یا جنہیں تو نے جائز ناجائز کی طاقت دے کر رسی ڈھیلی کر دی، وہ اپنی اوقات بھول گئے اس پاک دھرتی کے وہ خدا بن بیٹھے ہیں۔ تھوڑا سا انہیں بھی دھمکا دے،وہ بات بات پر ہماری غربت اور قسمت کے طعنے دیتے ہیں۔ اللہ میاں! ہمارے پاس نہ روٹی ہے نہ کوٹھی ہہے،ان کے پاس سب کچھہے،تو ہی رب ہے تو ہی سب ہے، ہمیں زندگی کا تحفہ دیا ہے تو اس کی حفاظت بھی فرما۔ ہمارے لہراتے کھیت اْجڑ گئے۔ بستیاں پانی میں بہہ گئیں۔ ہماری عورتیں اوربچے بے گھر ہو گئے۔ کھلے آسمان تلے تیرے آسرے پر بیٹھے ہیں کیونکہ تجھ سے بڑا مددگار کوئی دوسرا نہیں۔

ہم جانتے ہیں یہ امتحان کی گھڑیاں ہیں تو امتحان لیتا ہے کبھی کچھ دے کے، کبھی واپس لے کے لیکن ہم گھبرا گئے ہیں تیری رحمت سے مایوس ہرگز نہیں۔ ہمیں زمینی خدائوں کی بے حسی نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اے اللہ کریم! معاف کردے تو مالک ہے اور ہم تیرے بندے۔ ہمارے ہر گھر میں کراچی سے خیبر تک صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے، جو بچنے میں کامیاب ہو گئے وہ دربدر بھٹک رہے ہیں۔ طاقت ور حکمران اعلان پر اعلان اور ہماری بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں انہیں بلندی سے ہم کیڑے مکوڑے دکھائی دیتے ہیں انہیں نہیں پتا کہ تو انسانیت کا امتحان لے رہا ہے کہ تیری زمین پر بسنے والے آدم زادوں میں انسانیت باقی بھی ہے کہ نہیں، تجھے تیرے پیاروں کا واسطہ آقائے دوجہاں رحمت العالمین اور ان کے نواسوں کا واسطہ، ہمیں معاف کر دے۔

میرے دوست ٹوٹو میاں نے بڑے ہی جذباتی انداز میں یہ دعائیہ کلمات کہے اور میں نے کسی قسم کی مداخلت اس لیے نہیں کی کہ یہ ایک محب وطن بندے کا، اپنے رب سے گلہ شکوہ تھا، میری جرأت نہیں کہ میں کوئی بات کرتاکیونکہ حقیقت یہی ہے کہ کراچی میں بارشیں ہوئیں تو اندرون سندھ یہ رائے پائی جا رہی تھی کہ شکر ہے وہ بچگئے،اب اندرونِ سندھ تباہی آئی تو کراچی والے سجدہ ریز ہیں کہ اللہ نے انہیں تباہی سے بچا لیا، بلوچستان کے لوگوں پر بارش برسی، صورت حال خراب ہوئی تو سوچ اس سے مختلف نہیں تھی کہ ہم اس صورت
حال سے بچ گئے، خیبرپختونخوا کی باری آئی تو پورا ملک دہل گیا۔ پنجاب کا جنوبی حصّہ جس انداز میں تباہی کا شکار ہوا وہ بھی کسی سے کم نہیں لیکن مسئلہ دراصل یہی ہے کہ اس بڑی تباہی کے حوالے سے چاروں صوبوں کے وسائل ضرورت کے مطابق نہیں ،تحریر و تقریر کی آزادی ہے اس لیے سب کے سب بلا تفریق حالات کا مقابلہ نہیں کر سکے، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے خصوصی ریلیف فنڈز قائم کر دئیے۔ مخیر حضرات اور دیگر قومی اداروں سے اپیل بھی کی گئی ہے لیکن بات اس لیے آگے بڑھ گئی کہ ہمارے حکمرانوں نے کسی بھی دور میں ان بارشوں اور سیلابی پانی کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی بلکہ ہم نے اس پانی کو ہمیشہ سمندر کی نذر کر کے تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ حکمران آج کے ہوں یا ماضی کے،سب دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ نتیجتاً پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ وفاق نے صوبوں کو اربوں کے فنڈز جاری کر دئیے لیکن نقصانات ان سے بھی زیادہ ہیں۔ فوج امدادی کاموں میں ہراول دستہ بنی ہوئی ہے۔ سپہ سالار قمر جاوید باجوہ بھی سرگرم ہیں۔ آرمی فلڈ ریلیف سنٹر بھی قائم کر دیا گیا لیکن صفِ ماتم اس لیے بچھی ہے کہ سیلابی تباہ کاریوں کا حقیقی مداوا نہیں ہو پارہا، بلوچستان میں مسلسل 30 گھنٹوں کی بارشوں نے اسے ریڈار سے غائب کر دیا،زمینی اور فضائی راستے بند ہو گئے۔ ریلوے لائن اور پل ٹوٹ گئے۔ سڑکیں بہہ گئیں۔ کالام، سوات ، ٹانک میں ہر جھگی اور آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ نوشہرہ، چارسدہ کو 4لاکھ کیوسک ریلے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔پورے ملک کی زندگی معطل ہو گئی لیکن سیاسی رہنمائوں نے اپنی سرگرمیوں میں کمی نہیں کی۔ بلکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے مشیر
بیرسٹر سیف نے تو کمال کر دیا۔ ان کا کہنا تھا سیلاب اور اس جیسے قدرتی بحران آتے رہتے ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان کے جلسے ملتوی نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ عام سیاسی جلسے نہیں، انقلاب کی نوید ہیں اور انقلاب کے راستے رکتے نہیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین نے تمام سرگرمیوں کو ترک کر کے متاثرین کو فوقیت دینے کی اپیل کی تو ان کے اس خیر سگالی پیغام کے غبارے سے ان کے اپنے پھوپھا اور فریال تالپور کے صاحب بہادر نے متاثرین میں پچاس پچاس روپے کے نوٹ بانٹ کر ہوا نکال دی جبکہ تحریک انصاف کے ٹائیگرزنے سوشل میڈیا پر وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے غیر ملکی دوروں کی تشہیر کر کے حکومت کو زبردست تنقید کا نشانہ بنادیا۔ وزیراعظم لندن کا دورہ ملتوی کر کے سیلاب زدگان کی مدد اور امدادی حکمت عملی بنانے کے لیے واپس لوٹ آئے تو ٹائیگرز نے انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ شہباز گِل کیس میں جوڈیشل ریمانڈ اور خان اعظم کی قبل از گرفتاری ضمانت نے شہباز شریف کو خوفزدہ کر کے وطن واپسی پر مجبور کر دیا ہے لیکن ان کے میڈیا ٹائیگرز یہ بالکل نہیں بتا رہے کہ سیلاب زدگان کے لیے تحریک انصاف اور خان اعظم کیا کچھ کر رہے ہیں۔ ایک بیان سامنے آیا ہے کہ ہم ڈیم بنا کر سیلابی پانی سے بچ سکتے تھے آج اگر ڈیمز ہوتے تو ہمارے ہاں نقصانات کی بجائے ترقی ہوتی،تاہم اس کمی کوتاہی میں اب عمران خان بھی سابق حکمران کی حیثیت سے شامل ہو چکے ہیں کیونکہ انہوں نے نہیں بتایا کہ ان کے دور حکومت میں کتنے ڈیمز بنے یا بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟تاہم ملکی سطح پرتنقید نے انہیں میراتھون کرنے پرمجبور کر دیا۔

خیبر سے کراچی تک تباہی ہی تباہی ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا اس قدر نقصان ہو گیاجس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا حالانکہ قبل از وقت وفاق اور صوبائی حکومتوں کے پاس خبر موجود تھی کہ اس مرتبہ معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی لیکن غربت، وسائل کی کمی اور حالات کی بے بسی نے پوری قوم کو رگڑا دے دیا۔ سیاست دانوں کی اکثریت نے اس ملک گیر تباہی پر قومی جذبے سے کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن ہر کوئی حکمرانوں کو للکار رہا ہے کہ آئو جواب دو۔ تم نے قوم کو اس تباہی کے لمحات میں کیا دیا؟ گھر گھروندے پانی کی نذر ہو گئے۔ ہر طرف بھوک اور ننگ کی فاقہ مستی ہے۔ سیلابی پانی میں جگہ جگہ انسانی لاشیں ہی نہیں، مویشیوں کی بھی لاشیں دکھائی دے رہی ہیں اور انسانیت رو رہی ہے اور پانی کنارے کھڑے بےبس،بے گھر بھوکے لوگ حسرت و یاس کی تصویر بنے انسان اور انسانیت کی بے قدری پر آنسو بہا رہے ہیں۔ حکمران اور عمران دونوں عوامی دوست ملک و ملت کے وفادار ہیلی کاپٹر سے ان میں پانی میں تیرتی لاشوں کا نظارہ کر کے مختلف پانیوں میں کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کر کے اپنے محل نما گھروں میں سکون کی نیند سو رہے ہیں اور جن کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہیں ان کی پرواہ نہیں، اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہو گا کہ قوم کے پانچ نوجوان بپھرے ہوئے پانی کے سامنے بے بس ہو کر ایک چٹان پر گھنٹوں کھڑے رہے مگر کسی نے انہیں ریسکیو نہیں کیا اور دور کھڑے لوگ ہمت کے باوجود بھی انہیں نہیں بچا سکے اور یہ نظارہ بھی سب نے دیکھا کہ ایک ایک کر کے پانچوں بھائی پانی کی لہروں میں ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہمارے سیاسی رہنما اور حکمران اس مصیبت کی گھڑی میں افسوس، افسوس کر کے تعزیتی پیغام دے رہے ہیں۔ دنیا والوں کی مدد اور قومی خزانے سے اربوں روپے بھی تقسیم کئے جا رہے ہیں لیکن یہ امداد کسی بھی حوالے سے کافی نہیں، یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ پھر بھی سیاست دان اپنی سیاست بچانے کی فکر میں ہیں۔ افسوس صد افسوس۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button