ColumnMazhar Ch

بجلی بلوں میں اضافہ کیوں؟ ۔۔ مظہر چوہدری

مظہر چودھری

 

اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف نے کسانوں اور عوام کے شدید احتجاج کے بعدرواں ماہ بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج ختم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ ریلیف سب کے لیے نہیں ہے۔وزیراعظم کے ریلیف کا اطلاق یا تو 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر ہوگایا پھر زرعی ٹیوب ویل کے صارفین فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج سے مستثنیٰ ہوں گے۔ وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق بجلی استعمال کرنیوالے ایک کروڑ 71لاکھ صارفین اور زرعی ٹیوب ویل استعمال کرنے والے تین لاکھ صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج سے استثنیٰ دیا گیا ہے جب کہ 200یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے ایک کروڑ29لاکھ صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج پورے کا پورا ادا کرنا پڑے گا۔وزیر اعظم نے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک کروڑ 29لاکھ صارفین میں سے زیادہ صاحب حیثیت لوگ ہیںتاہم ان کو بھی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں ریلیف دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔

حکومتی اعلان کے مطابق 200یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے جن صارفین نے رواں ماہ بجلی کے بل ادا کر دئیے ہیں ، ان کو بجلی کے بلوں میں اگلے ماہ ریلیف دیا جائے گا تاہم بل جمع نہ کرانے والے صارفین کو ان کے نظر ثانی شدہ بل ملیں گے۔اعدادوشمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بجلی گھریلو صارفین کرتے ہیں جن کی تعداد 50فیصد کے لگ بھگ ہے۔ تجارتی بنیادوں پر بجلی استعمال کرنے والے صرف سات فیصد ہیں جب کہ صنعتی صارفین 25فیصد ہیں۔زرعی صارفین کی تعداد9فیصد اور دیگر شعبے 8فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں۔
یوں تو گرمیوں کے مہینوں میں صارفین کے بجلی بل عمومی طور پر زیادہ ہی آتے ہیں لیکن اس بار دو وجوہات کی بنا پر بلوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔بلوں میں ہوشربا اضافے کی سب سے بڑی وجہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ہیں اور دوسری وجہ گذشتہ مہینے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مرحلہ وار کیا جانے والا اضافہ ہے۔حکومت کی جانب سے پہلے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں سبسڈی دی جاتی تھی لیکن اب گزشتہ ایک سال سے اسے منفی یا مثبت دونوں صورتوں میں بل میں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز دراصل ایکچوئل فیول کاسٹ اور ریفرنس فیول کاسٹ میں فرق کی بنیاد پر ایڈجسٹ ہوتے ہیں۔ہر مالی سال کے آغاز میں نیپرا ایک ریفرنس فیول کاسٹ دیتا ہے جس کی بنیاد پر ہر ماہ ایندھن پر آنے والی کل لاگت کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ایک مہینے میں بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ایندھن کی مجموعی لاگت دراصل ملک میں توانائی کے مختلف ذرائع میں استعمال ہونے والے ایندھن پر آنے والی لاگت کے اعتبار سے نکالی جاتی ہے۔اگر کسی ماہ ایکچوئل فیول کاسٹ اس مہینے کی ریفرنس کاسٹ سے زیادہ ہو تو صارفین کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ دوسری صورت میں صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ریلیف ملتا ہے۔واضح رہے کہ رواں ماہ کے بلوں میں نیپرا نے کے الیکٹرک کو 11.37 روپے فی یونٹ جب کہ ملک کی دوسری تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو قریبا 10روپے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ ماہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مرحلہ وار اضافے کی منظوری دی گئی تھی جس کے مطابق اگست کے ماہ میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں3.50روپے فی یونٹ کا اضافہ ہوا ہے ۔دوسرے مرحلے میں بھی بجلی کے بنیادی ٹیرف میںساڑھے تین روپے فی یونٹ اضافہ ہو کیا جائے گا جس کا اثر ستمبر کے بلوں میں صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔بجلی کے بنیادی ٹیرف میں آخری اضافہ اکتوبر میں 91پیسے فی یونٹ کی صورت میں ہونا ہے۔ اگست کے مہینے میں وصول ہونے والے بلوں میں بنیادی ٹیرف قریبا 19روپے لگا ہے ۔ ستمبر کے بلوں میں بنیادی ٹیرف 22روپے سے زائد ہو نے کا خدشہ ہے جب کہ اکتوبرمیں بنیادی ٹیرف24 روپے فی یونٹ تک پہنچ جائے گا۔اس کے علاوہ اکتوبرتک صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی صورت میں فی یونٹ پانچ سے دس روپے فی یونٹ اضافی دینے پڑ سکتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق رواں ماہ کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو ملاکر صارفین کو فی یونٹ بجلی 35 سے 40روپے میں پڑی ہے۔

اگرچہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن پاکستان میں یہ اضافہ اس لیے کچھ زیادہ ہی شدید محسوس ہوا ہے کہ ہم اپنی بجلی کی کل ضروریات کا 31فیصد قابل تجدید ذرائع سے جبکہ 69فیصد ناقابل تجدید ذرائع سے حاصل کر رہے ہیں ۔قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی کل 31فیصد بجلی میں سے 26 فیصدپانی سے جبکہ بقیہ 5فیصدسولر اور ونڈ انرجی سے پیدا کی جا رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں ناقابل تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی میں سے 15فیصدفرنس آئل ، 25فیصد ایل این جی ،12فیصد نیچرل گیس، 9 فیصد کوئلے اور8فیصد نیوکلئیر پاور سے پیدا کی جا رہی ہے۔ فرنس آئل، ایل این جی اور نیچرل گیس سمیت کوئلے کی قیمتوں پر عالمی حالات کا براہ راست اثر ہوتا ہے۔پہلے کرونا اور بعد ازاں روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات اور کوئلے کی قیمتوں میں کئی بار اضافہ ہواجس کا اثر مہنگائی کے علاوہ بجلی کی پیداواری قیمت میں اضافے کی صورت میں سامنے آتا رہا۔ اعدادوشمار کے مطابق جو کوئلہ پچھلے سال مئی جون میں سو ڈالر فی ٹن تھا وہ اس سال ان مہینوںمیں تین سو ڈالر تک جا پہنچا اور اسی طرح ایل این جی جو گذشتہ سال کے وسط میں سات آٹھ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی وہ اس سال کے وسط میں40 ڈالر تک چلی گئی۔پاکستان میں پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا پوٹینشل ایک لاکھ میگاواٹ تک ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ڈیمز تعمیر نہ کرنے کی وجہ سے ہم جہاں ایک طرف ہائیڈل پاور سے صرف 26 فیصد بجلی بنا رہے ہیں وہیں مون سون میں زیادہ بارشوں کی صورت میں ہمارے ہاں سیلاب تباہی مچا دیتے ہیں۔

تلخ حقائق یہ ہیں کہ گذشتہ حکومتوں کے دور میں ماحول دوست قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر فوکس کرنے کی بجائے سارا زور تھرمل پاور پلانٹس لگانے پر رہاجس کا نتیجہ مہنگی بجلی کی صورت میں ساری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔توانائی کے حصول کے لیے معدنی وسائل پر انحصارکم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔حکومت کو ایک جامع منصوبے کے تحت تیل ، گیس اور کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کو بتدریج ختم کرتے ہوئے ان کی جگہ قابل تجدید توانائی(ہائیڈل، سولر، ونڈ)کے ذرائع پر سرمایہ کاری بڑھانی چاہیے۔توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر سرمایہ کاری بڑھانے سے نہ صرف مستقبل کی انرجی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ صنعتوں اورگھریلو استعمال کے لیے کم قیمت بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button