Editorialسیلاب

سیلاب کی دل دہلادینے والی صورتحال

وطن عزیز میں مسلسل بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے تباہ کاریاں جاری ہیں۔ سیاسی و عسکری قیادت متاثرہ علاقوں کا مسلسل دورہ کرکے ریلیف کے کام کا بھی جائزہ لے رہیں اور متاثرین کا حوصلہ بھی بڑھارہے ہیں۔ ملک بھر میں امدادی کیمپ لگاکر متاثرین کی مدد کے لیے عطیات جمع بھی کئے جارہے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں پہنچائے بھی جارہے ہیں۔ کم و بیش ہر پاکستانی اِس صورتحال میں اپنے متاثرہ ہم وطنوں کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے ایسے مناظر ہیں کہ دل دہل جائے املاک تو دور اُن کے نشانات بھی باقی نہیں رہے، جہاں ہنستے بستے شہر اور گائوں آباد تھے وہ اب دریا کی گزر گاہ معلوم ہوتے ہیں، سیلابی ریلوں نے بلندو بالا عمارتوں کو تو زمیں بوس کیا ہی، جو کچے درودیوار مکینوں کے آشیانے تھے ان کو بہا لے جانے میں ایک پل سے زیادہ وقت نہیں لیا۔ پاکستان میں جہاں جہاں اِس وقت سیلاب موجود ہے وہاں پہلے جو بستیاں، شہر، کاروباری مراکز، کھیت کھلیان تھے ، اب اُن کا نام و نشان نہیں اور سبھی کچھ اب متاثرین کی بھرآئی انکھوں میں محفوظ ہے کیونکہ اب کچھ بھی نہیں بچا اور تباہی ایسی پھیلی ہے کہ پاک فوج اور ریسکیو کرنے والے اداروں کا واحد مقصد فی الحال انسانی جانوں کو بچانا ہے جو اِس وقت سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں یا پھر اپنی جمع پونجی اور گھر بار چھوڑ چھاڑ کر اب کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور کسی کو بھی یقین نہیں آرہا کہ کیسے یہ قیامت ٹوٹی اور اُن کا سب کچھ بہالے گئی۔ گھر، دکانیں، ہوٹل، بلند و بالا عمارتیں، سکولز ہسپتال کچھ بھی نہیں بچا یہ ریلے کتنی آنکھوں کے خواب، بڑھاپے کی جمع پونجی اور ذریعہ روزگار سب کچھ بہا لے گئے ہیں۔ سیاسی و عسکری قیادت اور متاثرین کی مدد کے لیے آگے آنے والے ادارے جو بھی متاثرین کی مدد اور داد رسی کے لیے جاتاہے یہی بتاتا ہے کہ ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ متاثرہ افراد کومدد کے لیے بلاشبہ اب پوری قوم آگے بڑھ رہی ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا کیونکہ دنیا نے دیکھا ہے کہ پاکستانیوں نے ہر مشکل گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کے لیے ایثار کے ایسے جذبے کا مظاہرہ قائم کیا کہ مثالیں بن گئیں ۔بطور مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا ہے۔زلزلہ، طوفان، وبائی بیماریاں، خشک سالی، سیلاب سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آتے ہیں اور اِن آزمائشوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنا چاہیے لیکن اگرہم اِن آزمائشوں کے پیچھے دیکھیں تو ہماری طرف سے فطری قوانین کی خلاف ورزی بھی نظر آتی ہے جو ہم عقل و دانش پر پٹی باندھ کر نہیں دیکھ رہے۔ وطن عزیز میں حالیہ دنوں سیلاب کی تباہ کاریاں شروع ہوئیں تو ہم نے جہاں اپنی سیاسی قیادت سے درخواست کی کہ وہ صورتحال خراب ہونے سے پہلے قابو کرنے کی کوشش کریں وہیں اپنے ہم وطنوں سے بھی درخواست کی کہ وہ متاثرین کی مدد کے لیے آگے آئیں تاکہ جو گھر سے
بے گھر ہوگئے ہیں اور ان کا سب کچھ لٹ چکا ہے اُن کی بخیر و خوبی واپسی تک انہیں وہ تمام ضروریات زندگی مہیا کرسکیں جن کی فی الحال انہیں ضرورت ہے کیونکہ ابھی انہیں بھوک پیاس، وبائوں اور موسمی اثرات سے بچانا ہی ترجیح ہونی چاہیے، سیلاب بدستور پھیل رہا ہے اس لیے متاثرین کی بحالی کا ابھی سوچنا بھی قبل ازوقت ہے۔ آج جہاں متاثرین کی فوری امداد کی بات ہورہی ہےوہیں سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ قدرتی آفات کو آنے سے تو نہیں روکا جاسکتا لیکن اِن آفات کے نتیجے میں کم سے کم نقصان ہو، اس کے لیے ہماری کیا حکمت عملی ہے ۔قدرتی آفات تو غریب اور امیر ممالک کے مابین فرق کیے بغیر آتی ہیں لیکن طوفانوں، سیلابوں اور زلزلوں سے سب سے زیادہ متاثر غریب ممالک کے عوام ہی ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ہم بھی ان ممالک میں شامل ہیں جو قدرتی آفات سے بے حد متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ہم سنبھلنے کے بعد مستقبل کی پیش بندی کرنے کی بجائے دوسرے مسائل میں الجھ جاتے ہیں اور اگلی بار پھر ہمیں ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسی پچھلے سالوں میں ہم دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش زلزلہ 8 اکتوبر 2005 کو آیا جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے اور لاکھوں افراد کو بے گھر ہونے کا عذاب بھی سہنا پڑا اور بلاشبہ زلزلے کو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی کو البتہ جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے مگر جس آزمائش سے ہم اِن دنوںدوچار ہیں یہ قدرتی آفت تو ہے ہی مگر اِس تباہی میں برابر کے ذمہ داران وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی ہی نہیں کی، آج عامۃ الناس میں ایک بار پھر یہ بحث ہورہی ہے کہ اگر ہمارے ملک میں ڈیم ہوتے تو کیا اتنی تباہی پھیلتی ؟ اِس کے ساتھ ہی سوالات اٹھتے ہیں کہ ڈیم نہ بنانے کا ذمہ دار کون ہے؟ جو کہتے تھے کہ شہر اورقبریں ڈوب جائیں گے ان کا موجودہ تباہی کا پر کیا اظہار خیال ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری قیادت کو ملک و قوم کے دیرپا مفاد میں فیصلے کرتے ہوئے کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پرواہ کرکے آج ملک کا نصف سے زائد حصہ سیلاب میں ڈبودیا ہے اوراربوں روپے کا نقصان بھی مول لیا ہے۔ اس لیے اب قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلوں کی ضرورت ہے جن سے ملک و قوم کا فائدہ ہو۔ اب سیاست دانوں کی ماننے کی بجائے ملک و قوم کی مانی جائے اور انہی کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے وگرنہ ہر سال ایسی ہی تباہی کا خدشہ لاحق رہے گا۔ کبھی ہمارے کھیت پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے سوکھے رہتے ہیں تو کبھی پانی اتنا ہوتا ہے کہ سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ جب ہم جانتے ہیں کہ ڈیموں کی تعمیر زرعی انقلاب، سستی بجلی اور سیلاب سے بچائو کے لیے واحد حل ہے تو کیوں ہم ڈیم تعمیر نہ کرکے مہنگی ترین بجلی، سوکھے کھیت اور سیلاب سے تباہ کاریوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہمیں متاثرین کی فوری بحالی کے لیے ہر قدم آگے بڑھانا چاہیے اور آئندہ ایسے نقصانات سے کیسے بچا جائے اس کے لیے فوراً سر جوڑ لینے چاہئیں کیونکہ یہ غیر معمولی سیلاب اور بارشیں موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں اور بظاہر موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری کوئی تیاری نہیں اور بدقسمتی سے ہم دوسرے مسائل میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ہماری کسی بھی بحران یا قدرتی آفت کا مقابلہ کے لیے تیاری نظر نہیں آتی جیسا کہ اب بھی نظر آرہا ہے اور ہم قدرتی آفت کے ساتھ ساتھ اپنی بداعمالی کی سزا پورے ملک و قوم کو دے رہے ہیں۔قریباً دو سال پہلے مسلسل بارشوں کے نتیجے میں کراچی ڈوبا تو ہمیں آبی گزرگاہوں کا راستہ روکتی ناجائز تعمیرات گرانے کا خیال آگیا یہی وہ بات ہے جو ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ جب بھی ہم فطرت کے خلاف جانے کی کوشش کرتے ہیں شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگر تب بھی آبی گزرگاہوں کا خیال رکھ کر تعمیرات کی جاتیں تو کیوں کراچی ڈوبتا اور پوری دنیا کے سامنے ہمارا تماشا بنتا اس لیے تسلیم کرنا چاہیے کہ ہر ملک میں قدرتی آفات آتی ہیں لیکن اُن ممالک نے نقصانات کم سے کم کرنے کے لیے تیاری بھی کی ہوتی ہے مگر ہم ہمیشہ تبھی جاگتے ہیں جب پانی ہمارے سر کے اوپر تک آجاتا ہے۔ ایک طرف ہم خود دار قوم بننے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ہم ایسے کام ہی نہیں کرتے جن سے خود مختاری کا سفر شروع ہو۔ کوئی بھی آفت آتی ہے ہم برادری اسلامی ممالک کی طرف سے امداد کے منتظر ہوجاتے ہیں جیسا کہ اب بھی دوست ممالک امداد کے لیے آگے آرہے ہیں اگر ہم غلطیاں کرنا ہی چھوڑ دیں تو ہمیں امداد کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ زندگی میں ایسی بربادی نہیں دیکھی اللہ تعالیٰ سے ڈرکر ہمیں رحم مانگنا چاہیے۔ مجھ سمیت سب کو اللہ سے معافی مانگ کر اس ملک کے عوام کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرنا ہوگا۔جب فصلوں اور تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کا سروے مکمل ہوجائے گا ۔ایک مرتبہ پھر صاحب ثروت افراد، صنعتکاروںاورمخیر حضرات سے اپیل ہے کہ آگے بڑھ کر دکھی انسانیت کا ہاتھ تھام لیں ہمیں تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بطور قوم قدرتی آفت کا سامنا کرنے والے اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، جنہیں آج ہماری ضرورت ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا ہے کہ اپنے ہم وطنوں کی حفاظت اور بہبود سب سے مقدم ہے اور جب تک سیلاب سے متاثرہ ہر ایک شخص تک نہ پہنچ جائیں اور اس کی بحالی نہ ہو جائے ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، چاہے اس کے لیے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کرنی پڑیں، پاکستانی عوام ہماری ترجیح ہیں اور ہم اس مشکل وقت میں ان کی مدد کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کے موقع پر گفتگو کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فی الحال متاثرین کی مدد ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے جیسا کہ سیاسی و عسکری قیادت نے بھی کہا ہے کیونکہ حالیہ تباہی اور اس کے اثرات پوری قوم کے لیے چیلنج سے کم نہیں اور بطور قوم ہم نے اِس آزمائش میں پورا اُترنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button