ColumnJabaar Ch

سیلاب اور جسٹس منصور علی شاہ جبار چودھری

جبار چودھری

 

اکتیس جولائی2010،دن اڑھائی بجے جب پاکستان کی اکثر آبادیاں سیلاب میں ڈوب رہی تھیں۔دریائے سندھ بے قابوہوچکاتھاجبکہ حکومت سیلاب آنے اورنقصانات سے بچنے کی پوری تیاری نہ کرکے شرمندگی کے سیلاب میں بہے جارہی تھی کہ میانوالی میں دریائے سندھ پر بنے جناح بیراج کے قریب شگاف پڑ گیا۔معاملہ حکومتی کنٹرول سے باہر نکلاتو ضلعی انتظامیہ میں سے کمشنر میانوالی محمد افضل اور ڈی پی اورانا عبدالجبار نے شگاف کے قریب واقع سیمنٹ فیکٹری کے جنرل منیجرسے مدد کی درخواست کی۔ کہا کہ آپ کچھ مشینری ہمیں دے دیں تاکہ شگاف کو بند کیا جاسکے۔سیمنٹ فیکٹری کے جنرل منیجرمحمد اکرم نے فیکٹری مالک محمد سعید سہگل سے اجازت مانگی ۔فیکٹری مالک سعید سہگل نے اجازت دیتے ہوئے فوری انتظامیہ کی مدد کرنے کی ہدایت دی جس کے بعد فیکٹری منیجر نے بیس ڈمپر اور چند مزدورروانہ کردیے۔

اس وقت دن کے اڑھائی بجے تھے ۔جونہی وہ مشینری لے کر جناح بیراج کے قریب پہنچے ، انہیں پولیس اور انتظامیہ نے دور ہی روک دیا ۔ انہیں بتایا گیا کہ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جناح بیراج کا دورہ کررہے ہیں اس لیے کسی کو بھی ان کے نکلنے تک بیراج پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔یہ ٹیم جو ایمرجنسی میں شگاف بند کرنے کیلئے بلائی گئی تھی وہیں پھنس گئی اور پانی بستیوں کی بستیاں اجاڑتا چلا گیا،ڈھائی گھنٹے بعد جب وزیراعلیٰ واپس گئے تو ان مزدوروں اور مشینری کو بیراج تک جانے کی اجازت ملی۔ جب یہ ٹیم شگاف تک پہنچی تودن کے ساڑھے چار بج چکے تھے ۔شگاف پُر کردیا گیا لیکن بہت دیر ہوچکی تھی اور سیلاب اپنا کام کرچکا تھا۔

یہ بیان میانوالی میں قائم سیمنٹ فیکٹری کے جنرل منیجر محمد اکرم کا ہے، جو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے سامنے ریکارڈ کروایا جو دوہزار دس کے تباہ کن سیلاب کے بعد اس کی وجوہات جاننے اورآئندہ بچنے کی سفارشات کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ اس جوڈیشل کمیشن کی سربراہی اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جناب جسٹس منصور علی شاہ کررہے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ بعد میں لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے اور اس وقت سپریم کورٹ کے جج ہیں اوردوہزار پچیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دوہزار دس کے سیلاب پراپنی تفتیش اور تحقیق کے بعد ستمبر دوہزار چودہ میں چار سو صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ لکھی جسکا ایک ایک حرف سونے میں تولنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے اس رپورٹ کو’’رووڈ اویکننگ‘‘ (rude awakening)کا نام دیا۔
جسٹس صاحب نے رپورٹ میں لکھا کہ سیلاب کی تباہی کے بعد متاثرین کی بحالی اور مالی امداد کیلئے جو کچھ حکومت نے کیا وہ بہت ہی بہترین اورحوصلہ افزا ہے لیکن سیلاب کی روک تھا مکیلئے اقدامات اور دوران ایمرجنسی وی وی آئی پیز کے دورے نہ صرف ریسکیوکے کام میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ یہ اس سسٹم کے چہرے پر بدنما داغ ہے کہ جو کام علاقے کا ایک اسسٹنٹ کمشنر کر سکتا ہے ،اس کیلئے صوبے کے وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کو جانا پڑتا ہے۔

اس رپورٹ میں انہوں نے سیکریٹری آبپاشی رب نوازکو پنجاب میں سیلاب کی روک تھام نہ کرنے کا مجرم قراردے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی لیکن ان کا تعلق طاقتور بیورو کریسی کے ڈی ایم جی گروپ سے تھا اس لیے مقدمہ تو دور کی بات ان کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی بھی نہ کی گئی بلکہ انہیں اسی وقت پنجاب سے وفاق میں سیکرٹری لگادیا گیا۔کمیشن نے سختی سے پابندکیا کہ دریاؤں اور آبی گزر گاہوں کے قریب لوگوں کو آباد نہ ہونے دیا جائے کیونکہ ایک تو یہ پانی کے گزرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور دوسرا یہ لوگ ان پر ملکیت کا دعویٰ کردیتے ہیں اور عارضی بستیاں مستقل دیہات کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس رپورٹ کا زیادہ حصہ حکومتی غفلت اور سیلاب سے روک تھام کیلئے کیے جانے والے پیشگی اقدامات کی سفارشات پر لکھا ۔یہ رپورٹ آج بھی پنجاب حکومت کے پاس ہے اور لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی ہے ۔ اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔ شہبازشریف اس رپورٹ کے چار سال بعد بھی وزیراعلیٰ رہے لیکن چونکہ سیلاب کو چار سال گزرچکے تھے اس لیے اس کی افادیت کو ختم ہی سمجھا گیا۔

اس وقت پھر ہمیں سیلاب کا سامنا ہے۔ پنجاب ،سندھ ، بلوچستان اورخیبرپختونخوا کے ایک سوسولہ اضلاع سیلاب کی زد میں ہیں۔ حکومت لوگوں کو ریسکیو اور بحالی کے کاموں پر لگی ہوئی ہے۔ ملک میںجاری سیاسی تقسیم اور لڑائی کی وجہ سے سیلاب کے دکھوں کو ویسے اجاگر نہیں کیا جارہا جیسا کہ ہونا چاہیے۔ہم اس آفت سے اس باربھی نمٹ لیں گے۔نقصان ہوگا ازالہ بھی کردیا جائے لیکن سبق نہیں سیکھیں گے۔ سیلاب آنے کے بعد لوگوں کا دکھ درد بانٹ لینا بہت اہم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سیلاب کو آنے سے روکنا اور اس کے آگے مستقل بندھ باندھنا ہے وہ ہم نے نہ پہلے باندھا اور نہ اب باندھیں گے کیونکہ یہ ہماری سرشت میں ہی شامل نہیں ہے۔ہم پرو ایکٹونہیں بلکہ ری ایکٹوقوم ہیں ۔

آج میں جسٹس منصور علی شاہ کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ پڑھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ حکمرانوں سمیت ہم پوری قوم ہی ڈنگ ٹپاؤ ہیں۔جب آفت سرپرپڑتی ہے تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگے پھرتے ہیں۔جب گزرجاتی ہے تو پھر سو جاتے ہیں۔ کبھی اس آفت کا پیشگی اندازہ لگانے اورتیاری کی زحمت ہی نہیں کرتے۔اس نظام کو مضبوط نہیں کرتے۔ملک میں ترقی ریاستی اداروں اور جمہوریت کی مضبوطی سے آتی ہے۔اسی ترقی کیلئے اداروں اور اس نظام کو اس قدر فعال بنانے کی ضرورت ہے کہ چڑیا کے شکار کیلئے غلیل کے بجائے توپ کے استعمال سے بچاجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button