Columnعبدالرشید مرزا

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

جماعت اسلامی پاکستان کا یوم تاسیس 26 اگست 1941 بڑی اہمیت کا حامل ہے جب پورے عالم میں ایسی تحریک کی بنیاد رکھی گئ جس نے دین کو ایک مکمل شکل میں پیش کیا، اس مضمون کو مکمل مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے تعارف اور تاسیسی اجلاس کی روداد کے بغیر مکمل نہیں کیا جاسکتا جو حاضر خدمت ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ 1903میں اورنگا آباد، انڈیا میں پیدا ہوئے، اسلام ایک دین ہونے کی بجائے مسجد، منبر، محراب، درباروں پر عرس، درگاہوں کی حد تک محدود تھا۔ انگریز کی غلامی میں مسلمان عبادات کو ہی مکمل دین سمجھتے تھے کیونکہ انگریز کو یہ پسند تھا۔ اس دور میں غلبہ اقامت دین، اسلامی معیشت، اسلامی نظام حکومت جیسے عنوانات پر بات کرنی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سمجھاجاتا تھا چونکہ ہر مشکل دور میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ساتھ موسیٰ کو بھیجتا ہے، ایسے دور کا آغاز ہوتا ہے جہاں اسلام کو مذہب کی حد تک محدود کر دیا گیا وہاں آواز اٹھنی شروع ہوئی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں علامہ محمد اقبالؒ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، عرب میں امام حسن البناء جیسے اسلامی سکالرز نے آواز بلند کی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عبادات کے ساتھ، نظام حکومت، نظام معیشت، معاشرت اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو قرآن و سنت کی روشنی میں استوار کیا جائے۔ اس کیلئے ایک الگ وطن کی کوشش کی جائے جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہوگی، ایسی ریاست وجود میں آئے گی جو مدینہ کی طرز پر دنیا کی قیادت کرے گی۔ اس کیلئے نظریاتی، فکری اور سیاسی محاذ پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ اسلامی ریاست پاکستان وجود میں آئی۔سید ابوالاعلی مودودیؒ سے اپنی زندگی میں ملنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کے لٹریچر سے ضرور استفادہ ضرور کیاانہوں نے تفہیم القرآن کی شکل میں خوبصورت موتی جو بکھیرے ہیں ان کی خوشبو سے پوری دنیا معطر ہو گئی ہے۔ میری مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے خواب میں ملاقات ہوتی ہے جو جماعت اسلامی کے یوم تاسیس پر حاضر خدمت ہے۔ سوالات کا ایک تسلسل امت مسلمہ اور جماعت اسلامی کے کارکنان کیلئے حاضر خدمت ہے۔ میں دیکھتا ہوں چند افراد بیٹھے ہیں اور ان کے درمیان ایک خوبصورت درمیانی عمر کی شخصیت گفتگو کررہی ہے دور سے آواز کم آرہی تھی جس کی وجہ سے باتیں سمجھ نہ آسکیں آہستہ آہستہ میں اس اجتماع کی طرف بڑھتا ہوں تو صحیح اندازہ ہوتا ہے 75 افراد موجود ہیں جو شخصیت گفتگو کر رہی ہیں ان کا نام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ہے ان کی دعوت پر 25؍اگست 1941کو یک جا ہونے کی دعوت دی گئی تھی یہ جگہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کرائے کا مکان، متصل مبارک مسجد، شبلی سٹریٹ، اسلامیہ پارک، پونچھ روڈ، لاہور ہے اور دُنیا بھر کے انسانوں، تمام مسلمانوں اور برصغیرکے باشندوں کی زندگی اور زندگی کے مسائل، کثیرجہتی موضوعات پر کلام کرنے والے، سوئے ہوئوں کو جگانے، اور پھر جاگنے والوں کو راستہ بتانے والے،
اللہ کے بندے سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے جو دور دور سے آنے والے لوگوں سے مخاطب تھے۔ ان کے مدلل، مربوط اور بھرپور تجزیے نے اسلامی تحریک برپا کرنے کی ضرورت واضح کردی، اسلام کا مقصد، زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بنیادی طور پر بدل دینا ہے۔دوسرے یہ کہ کُلی و اساسی تغیر صرف اُسی طریق پر ممکن ہے، جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار فرمایا تھا۔ جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع کا آغازہوا۔ مولانا مودودیؒ نے ابتدائی خطاب زندگی اور مقصد کے موضوع پر کیا۔ زندگی کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا دین کو تحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامد و ساکن ہوکر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ و قائم کرنے، اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ اسلامی تحریک اور دوسری تحریکوں میں فرق اس مرحلے پر پیش نظر تحریکِ اسلامی اور دوسری تحریکوں کے درمیان اصولی فرق کو دوٹوک الفاظ میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے یوں بیان کیا کہ مسلمانوں میں عموماً جو تحریکیں اُٹھتی رہی ہیں، اور جو اَب چل رہی ہیں، پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کرلینا چاہیے۔ اُن میں یا تو اسلام کے کسی جزء کو یا دُنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنایا گیا ہے، لیکن ہم عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اُٹھ رہے ہیں اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔ تحریکِ اسلامی کا میدانِ عمل مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بڑے
اختصار اور جامعیت سے تحریک ِ اسلامی کے دائرۂ عمل کی نشان دہی کرتے ہوئے رہنمائی عطا کی، جماعت اسلامی کے لیے دُنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے اور ہر چیز جس کا انسان سے کوئی تعلق ہے، اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ لہٰذااسلامی تحریک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیت اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں، یہاں ہر انسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ،جو شخص، جو قابلیت بھی رکھتا ہو، اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے۔ یہ بات ہراس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے، وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت، ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے۔ اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہرشخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں (الانفال ۸:۱۶) لہٰذا، جو قدم بڑھائو اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے، میرا کام آپ کوایک جماعت بنادینے کے بعد پورا ہوجاتا ہے۔ میں صرف ایک داعی تھا، بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کررہا تھا اور میری تمام مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایسا ایک نظامِ جماعت بن جائے۔ جماعت بن جانے کے بعد مَیں آپ میں کا ایک فرد ہوں۔ اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے اور پھریہ اس امیر کا کام ہے کہ آئندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اسے عمل میں لائے۔میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آئندہ اس تحریک کی رہنمائی کو بھی میں اپنا ہی حق سمجھتا ہوں۔ ہرگز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ اس نظریے کا قائل ہوں کہ داعی کو ہی آخر کار لیڈر بھی ہونا چاہیے۔ نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے اور نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئی صاحب ِ عقل آدمی یہ حماقت کرسکتا ہے کہ اس بوجھ کے اپنے کندھوں پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔ درحقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی نظامِ جماعت موجود ہو اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظامِ جماعت کے ماتحت ایک چپڑاسی کی خدمت انجام دینا بھی میرے نزدیک اس سے زیادہ قابلِ فخر ہے کہ کسی غیر اسلامی نظام میں صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب مجھے حاصل ہو، لہٰذا جماعت بن جانے کے بعد میری اب تک کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ آئندہ جماعت اپنی طرف سے اس ذمہ داری کو جس کے بھی سپرد کرنے کا فیصلہ کرے۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button