ColumnQadir Khan

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

 

کہتے ہیں کہ جب محمدشاہ تغلق نے دہلی کے بجائے دیول گری کو دارالخلافہ بنایا اور اس انتقال مکانی کی وجہ سے رعایا برباد ہوئی اور خزانہ خالی ہوگیا تو مشیرانِ سلطنت نے باا دب گذارش کیا کہ اب خزانے میں روپیہ کہاں سے آئے گا ۔ اس پر محمد شاہ تغلق نے جواب دیا کہ یہ کون سا مشکل کام ہے ، ہم دیول گری کا نام دولت آباد رکھ لیتے ہیں، خزانہ خود بخود بھر جائے گا ۔ مورخین نے محمد شاہ تغلق کو دیوانہ قرار دیا ہے، بات تھی بھی دیوانہ پن کی لیکن اس قسم کی دیوانگی محمد شاہ تغلق کے ساتھ ختم نہیں ہوگئی ۔ ہمارے دور میں بھی ایسے دیوانوں کی کچھ کمی نہیں۔ کچھ ایسے لیڈر ہیں جن کے سامنے ابھی تک زندگی کے وہی مقصد ہیں جو دور غلامی میں ان کے پیش نظر ہوا کرتے تھے ۔ وہی مناصب و مدارج کے لیے تگ و تاز ، وہی الیکشنوں کی دوڑ دھوپ ، وہی پارٹیوں کے جوڑ توڑ ، وہی جھوٹی عزتوں کی تمنائیں ، وہ اپنے ان مقاصد کے بروئے کار لانے کے لیے قوم کو سیاسی پیچیدگیوں کو الجھائے رکھتے ہیں۔ قوم کے سامنے کوئی تعمیری پروگرام نہیں۔ ان کے سامنے اس امر کا کوئی تصور ہی نہیں کہ انہیں یہ مملکت کیوں ملی تھی ؟ ان کا مستقبل کیا ہے ؟ دنیا میں کیا ہورہا ہے ؟ کیا ہونے والا ہے ؟ بین الاقوامی بساط ِ سیاست پر ان کی کیا حیثیت ہے ؟ اقوام عالم کی میزان میں ان کا وزن کس طرح بڑھ سکتا ہے ؟ ان مسائل کے متعلق نہ سنجیدہ فکر کے آثار دکھائی دیتے ہیں ، نہ اس قسم کی فکر کی تربیت کے لیے کوئی وسائل۔ وقت کو ضائع کرنے کی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں اس خوف کے بغیر کہ اس سے سب کو یکساں نقصان پہنچ رہا ہے۔

کئی برسوں بعد دیکھنے میں آیا ہے کہ اخلاقیات میں جہاں الفاظوں کا غلط چنائو اور گفتاری میں بد تہذہبی عروج پر ہوا کرتی تھی اب وہاں جنس کے معاملے میں الزامات کا دائرہ خواتین کے ساتھ بد سلوکی سے بڑھتے بڑھتے مردوں کے دامن کو بھی جلانے لگا ہے۔ سیاست میں کردار کشی کوئی نئی بات نہیں ، ملکی تاریخ میں فاطمہ جناح سے لے کر شہید بے نظیر بھٹو تک کی جس قدر بے حرمتی کی گئی وہ تاریخ کی بد ترین مثالیں ہیں لیکن اب ایک نئے رجحان نے معاشرے کو امتحان میں ڈال دیا ہے کہ جنسی زیادتی کے الزامات براہ راست اداروں کے اہلکاروں پر لگائے جانے لگے ہیں اور یہ نچلی سطح سے نہیں بلکہ ایک مخصوص جماعت کے قائدین نے کسی امر سے بے خوف ہو کر اسے وتیرہ بنالیا ہے۔ حکومت کو جوڈیشنل انکوائری کرکے ایسے قبیح الزامات کی تحقیق کروانی چاہیے ، اس سے صرف اس شخص کا دامن داغ دار نہیں ہورہابلکہ پوری مملکت کے چہرے پر کالک ملی جا رہی ہے اور دنیا میں ملک کی تصویر بدترین شکل میں پیش کی جا رہی ہے۔ کیا ہم ایسی سیاست پر کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی ہیں۔

غالب ؔ نے کہا تھا کہ
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون ِ جگر ہونے تک

اب منفی سیاست کے عاشقوں کی یہی حالت زار ہے کہ سیاسی جنگ بندی کے لیے کوئی بھی درمیان میں پڑنے کو تیار نہیں۔ جھوٹ و سچ کا تو اب فیصلہ ہونا ہی مشکل ہوگیاہے۔ بعض سیاست دان جس بری طرح مکاری اور فریب دہی کے ہر رسوائے عالم ریکارڈ کو توڑ رہے ہیں اور ان کی طرف سے جن مشئوم عزائم کا مظاہرہ ہورہا ہے ، اس کا واضح مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ مخالفین کو ایک لمحہ کی بھی فرصت اور مہلت نہ دی جائے۔اس باب میں ایک کوتاہی ہمارے ارباب اختیار سے بھی ہو رہی ہے کہ بعض عناصر جن انتظامات میں قوم و ملک کی بدنامی کا باعث بننے کے لیے ملک کے طول وعرض میں پھیل رہے ہیں اور جگہ جگہ عوامی جلسوں کے ذریعے ، خاص منظم انداز میں ہلّہ بولا ہوا ہے ، اب ان کو لگا م دینے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر بیٹھا جائے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ ہمارے معاشرے میں غیر ذمے دار اور لا ابالی اور بے ہودگی کے مظاہرے اب محکم روایت تو نہیں بنے اور تمام تر اخلاقی انحطاط پزیری کے باوجود ’’’ ٹیڈی بوائز ‘ اور
ٹیڈی گرلز ‘‘ نے وہ کچھ کردکھایا ہے جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ اس سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آگئی ہے کہ ہماری اس نسل کا خمیر، حمیت اور شرافت سے بالکل عاری نہیں ہوا۔ یہ ان میں موجود ہے ، نقص ہمارے ان لوگوں میں ہے جو ہر معاملے کو فروعی سیاست کی نذر کردیتے ہیں اور چند وقتی فوائد کے لیے کسی بھی حد سے گذرنے میں عار محسوس نہیںکرتے۔ جب تک اخلاقیات اور شرافت کی متاع عزیز کی قدر و قیمت کو اجاگر نہیں کیا جاتا ، ضرورت ہے کہ ہم اس طرف فوری توجہ دیں ، خواہ اس کے لیے ہمیں ، کچھ وقت کے لیے پس ِ پشت قربانیاں ہی کیوں نہ دینی پڑیں ۔

جوں جوں دن گذرتے جارہے ہیں، بعض سیاست دانوں کے قول و فعل کے تضادات مزید کھل کر سامنے آرہے ہیں ، لیکن سب سے اہم اور قابل توجہ معاملہ یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد جذباتیت کا شکار بھی نظر آرہی ہے ، ان کے نزدیک ایک فرشتہ صفت تو باقی سب شیطان ہیں۔ انہیں یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کہ فرشتہ صفت نے ملک کو کس انارکی کی جانب دھکیل دیا ہے ۔ انتقام کی سیاست تو ہمیشہ سے موجود رہی ہے لیکن ان نیک سیرتوں نے تو انتقام کا بیانیہ ہی بدل دیا ہے۔ عوام کی کثیر تعداد بالکل نہیں سوچ رہی کہ یہ بداخلاقی اقدار اور بد نما تہذیب لانے کے موجد کون ہیں جنہوں نے سیاست کے تمام رشتوں کو پامال کردیا ۔ ایسا تو کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا تھا ۔ اب تو جذبات میں وہ سینئر صحافی و غیر جانبدار رہنے والے اینکر بھی بہہ جاتے ہیں جن سے کبھی توقع بھی نہیں کی جاتی تھی کہ وہ بھی اوروں کی طرح ہوجائیں گے۔ سوشل میڈیا کا کھلا میدان مدر پدر آزاد ہو کر جو طوفان بدتمیزی کررہا ہے، اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا ہوگا۔ ہم چاہے ایسی سیاست کو کوئی بھی نام دے دیں، اسے کبھی درست نہیں کہا جاسکتا ۔ اخلاقی قدروں کی اس درجہ پامالی کہ خود اپنے کپڑے پھاڑ کر عصمت دری کا الزام دوسروں پر عائد کرکے دشنامی سیاست کی جائے، یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اس منفی رویئے کو مزید پروان نہ چڑھائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button