ColumnNasir Naqvi

دبائو میں کون ہے؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

عمران خان کہتے ہیں چوروں اور ڈاکوئوں کی مسلط کردہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکتی، مہنگائی سمیت کوئی بھی مسئلہ ان کے قابومیں نہیں، وہ نہ صرف خود امپورٹڈ ہیں بلکہ ان کی سوچ بھی امپورٹڈ ہے۔ وہ اشاروں پر چل رہے ہیں، انہیں سازشیوں کی سہولت کاری کا انعام اقتدار کی صورت ملا ہے۔ لہٰذا وہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرا کر بھی ابھی تک دبائو میں ہیں۔انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیاکریں؟ میرا مشورہ ہے کہ فوری الیکشن کرا کے جان چھڑائیں، میں نہ پہلے دبائو میں تھا، نہ اب دبائو میں آئوں گااور میں نے بتا دیا تھا کہ اگر اقتدار سے نکلا تو اور زیادہ خطرناک ہو جائوں گا، نہ چین سے بیٹھوں گانہ ہی بیٹھنے دوں گا۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم کس کے ساتھ کھڑی ہے، ہم نے حکومتی حربوں کے باوجود نئے انتخابات کے لیے دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوامی رابطہ مہم کے لیے بھی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ ملکی نظام کی بہتری کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے جبکہ حکومتی مؤقف ہے کہ ہم پر کسی کا کوئی دبائو نہیں۔ ہم نے سوچ سمجھ کر آئین کے مطابق سیاست کی بجائے ریاست کی فکرکی ہے۔ اسی لیے مشکل فیصلے کر رہے ہیں ہم آئین اور قانون کی بالا دستی کے ساتھ جمہوری اقدار کی پاسداری کر رہے ہیں اگر عمران خان اور ان کے حواری قومی اداروں اور آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت دبائو میں آ جائے گی تو یہ ان کی خوش فہمی ہے اسی لیے وہ اور اُن کے کارندے تمام قومی اداروں کی رٹ کو چیلنج کر کے اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔چند دن میں انہیں پتہ چل جائے گا کہ وہ دراصل غلط فہمی کا شکار تھے۔ ادارے آزاد ہیں۔ عدالتیں بھی کسی دبائو کے بغیر کام کر رہی ہیں۔ حکومت عدالتوں کا احترام کرتی ہے اور ماضی کے جعلی مقدمات کا سامنا بھی کر رہی ہے جو آئین شکنی کرے گا خود بھگتے گا، الیکشن کمیشن پر الزامات کی بوچھاڑ، ایف آئی اے کے نوٹسز پر جوابی نوٹس، آئی جی اور ججز کو دھمکیاں اس بات کی دلیل ہے کہ عمران خان نفسیاتی، ذہنی اور اخلاقی دبائو میں ہیں ورنہ وزیراعظم کے عہدے پر رہنے والا کوئی شخص کبھی بھی ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ حادثاتی وزیراعظم اقتدار سنبھال نہیں سکا اور اقتدار چھن جانے سے دیوانہ ہو گیا ہے۔ ہم اتحادی حکومت ہیں، وسیع تر اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے چیلنج سمجھ کر حکومت سنبھالی ہے ۔ ہمیں کوئی کچھ بھی کہے ہم ثابت قدم رہیں گے جو حکومتی رٹ نہیں مانے گا سزاوار ٹھہرے گا۔ کوئی سیاسی مقدمہ نہ بنا رہے ہیں، نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن آئین پاکستان کے خلاف سرگرمی کی اجازت کسی کو نہیں دے سکتے، ہماری نیک نیتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ہم نے عمرانی حکومت کی طرح کسی پر زبردستی منشیات ڈالی اور نہ ہی کیس بنایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ کوئی شخص آئین اور قانون سے بالا نہیں ۔ حکومتی اداروں کو اپنی رٹ قائم کر کے ثابت کرنا ہو گا کہ کوئی قومی اداروں کو نشانہ بنا کر جمہوریت اور مملکت کو کمزور نہ کرے۔ عمران خان صرف تین ساڑھے تین سال کے اقتدار میں حواس کھو بیٹھے، انہیںاقتدار کے نشے نے پاگل کر دیا ہے۔ عدلیہ کو فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ کسی طرح بھی آئین سے بالاتر نہیں، آصف زرداری نے الزام لگایا کہ عمران خان بظاہر پاکستانی ہے۔ اس کا ایجنڈا پاکستان کے ہر قومی ادارے اور
نظام کو تباہ کرنا ہے۔ اس کی غیر ذمہ دارانہ تقاریر نے نئی نسل میں بگاڑ پیدا کیا۔ میڈیا کو برباد کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو ہتھیار بنایا، صحافیوں پر مقدمات بنائے، ایسے قوانین بنانے کی کوشش کی جس سے میڈیا کو کنٹرول کیا جا سکے، پھر آزادی صحافت کے نام پر اپنے چند کارِ خاص کے ساتھ دھواں دار خطابات کرتے ہیں۔ عدلیہ کا گلا گھونٹنا، ناجائز مقدمات بنا کر سیاست دانوں اور مخالفین کو قید میں ڈالا، پھر بھی آزادی رائے اور انصاف کی بات کرتے نہیں تھکتے۔ ایسی صورت حال میں سیاست سیاست کھیلنے کی بجائے چاروں صوبوں میں بارشوں اور سیلابوں سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال کی سب کو فکر ہونی چاہیے لیکن سب اپنے اپنے حال میں مست ہیں اور عمران خان بدمست ہیں ان کی دھمکی ہے کہ کوئی انہیں گرفتار کر کے دکھائے، لہٰذا حکومت اور اداروں کو اپنی رٹ قائم کر کے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا ورنہ بدمست ہاتھی کی طرح ایک شخص اداروں اور قانون کو روند کر تہس نہس کر دے گا۔

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ جب گرفتاری کی خبر پھیلتی ہے بنی گالہ اور اس کے گردونواح میں کھلاڑیوں کو اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ فرخ حبیب فیصل آباد اور مراد سعید، علی امین گنڈا پورخیبر پختونخوا سے بسیں بھر کر پہنچ جاتے ہیں۔ عمران خان بھی احتیاط برتتے ہوئے بنی گالہ سے غائب رہتے ہیں لیکن اس ساری حکمت عملی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ خبر نہیں، افواہ تھی کیونکہ پولیس نے بنی گالہ جانے والے راستے کی ناکہ بندی کر لی تھی، سابق وزیراعظم سب لوگوں کے لیے قانون کی یکساں فراہمی کا نعرہ ضرور لگاتے ہیںلیکن خود کو عدالت اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اسی لیے قبل از گرفتاری کی ضمانت کے لیے بھی عدالت جانا پسند نہیں کیا، بہرکیف توہین عدالت کیس میں انہیں
31اگست کو انہیں طلبی کا شوکاز نوٹس دے دیا گیا ہے۔ عدالت کی سوچ بھی یہی ہے کہ ایک سابق وزیراعظم کا کلام و بیان ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے بیانات سے تو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جیسے یہ لوگ اس بات کے خواہشمند ہیں کہ لوگ خود اپنا انصاف شروع کر دیں، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، معاملات حکومت اور عمران خان کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں کے درمیان کوئی بفر سیٹ نہیں، ا س کا مطلب ہے تصادم۔ توقعات یہی ہیں کہ عمران خان عدالت سے معافی نہیں مانگیں گے کیونکہ وہ محض لاڈلا نہیں، ضدی بچہ بھی ہے اور ایسا ضدی کہ جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، ہر مرتبہ من مرضی کا سودا کرنے کا عادی ہے لیکن ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ اس مرتبہ ایسانہیں ہوسکے گا۔ عدالت میں معافی مانگیں گے ، نہیںتو تین سے چھ ماہ قید کی سزا ضرور ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل کے خطرات کی بدولت وہ اپنی منفرد صلاحتیں استعمال کرتے ہوئے یوٹرن لے جائیں کیونکہ اس کے بعد کیوں اور کس لیے کی وضاحتیں کرنی ہی نہیں آتیں بلکہ وہ اپنے مؤقف کا پرچار بھی سوشل میڈیا کی مدد سے خوب بلکہ بہت خوب انداز میں کرنا جانتے ہیں، انہیں بات کرتے کرتے اسلامی ٹچ دینے کا فن بھی آتا ہے۔ تاہم ان کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات اور جارحانہ بیانات سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں نے انہیں دبائو میں ڈال رکھا ہے۔ اسی رپورٹ پر وزیر داخلہ اور اتحادی جماعتیں ان کی گرفتاری کے فیصلے کے بعد بھی صرف افواہ سے انہیںون ڈے میچ کھیلا رہی ہیں۔ دوسری جانب خالصتاً پاکستانی صادق و امین سابق وزیراعظم کے سوشل میڈیا کے سورما بھی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جٹ کا پتر شہباز گِل مخالفین پر رندھا پھیرتے پھیرتے خود رندھا پھروا بیٹھا۔ اب تو ایف آئی اے نے اسلام آباد کے صحافیوں کی موجودگی میں پارلیمنٹ لاجز سے اپنے مطلب کا مواد بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔ کراچی سے جمیل فاروقی کو بھی ظالموں نے سرکاری مہمان بنا کر ایسی خاطر تواضع کر دی ہے کہ بڑے بڑوں پر لرزاں طاری ہے۔ دنیا کے مقبول لیڈر عمران خان پر امپورٹڈ حکومت نے دہشت گردی کا مقدمہ بنایا تو اقوام متحدہ نے نوٹس لے کر انسانی حقوق پر زور دیا کہ غیر جانبدارانہ قانونی کارروائی کی جائے۔ امریکہ بہادر جن سے اچھے تعلقات کے لیے عدنان اسد لابنگ کر رہے ہیں اس نے پھر یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا کہ ہم دنیا میں جمہوری اصولوں کے حامی ہیں۔ معاملہ پاکستان عدالتی ہے اس لیے ہم غیر جانبدار ہیں یعنی امریکہ بہادر بھی جانور بن گیا۔ بہر کیف کتنی بے حسی ہے کہ اقوام متحدہ ایک مقدمے پر تو ہل گئی بھارت کے ظلم و بربریت کے شکار کشمیریوں اور اسرائیلی نشانے پر بے گناہ فلسطینیوںکے خون پر بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح معاشی بحران، بارش و سیلاب کی آفت زدہ صورت حال پر پاکستانی سیاستدان صرف اپنی سیاست بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حکومتی اتحادی حالات کی نزاکت میں حکومت پر دبائو کا رونا رو رہے ہیں اور کپتان کے حمایتی عمران خان پر دبائو کا واویلا لیکن کوئی یہ بات کرنے کو تیار نہیں کہ حقیقی دبائو کا شکار پاکستان اور پاکستانی عوام ہے جس کے معاشی حالات میں نہ بہتری آ رہی ہے اور نہ ہی مہنگائی کم ہونے کا کوئی بہانہ نظر آ رہا ہے۔ سالانہ بجٹ، بجلی بل، گیس بل، پیٹرول اور اشیائے ضروریہ کی مہنگائی ستم ڈھا رہے تھے کہ اب ضمنی بجٹ نے بھی گلا دبانے کا پیغام دے دیا۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ اس لیے کہ اکثریت کا عہد نہ صرف اس دھرتی ماں سے ہے بلکہ سب کی پہچان یہی پاکستان ہے۔ سیاست دانوں کو صرف اپنے دبائو کی فکر لاحق ہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر عوامی دبائو کا سیلاب آ گیا تو پھر کچھ نہیں بچے گا لیکن یہ بات سمجھ آ جائے گی کہ دبائو میں کون ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button