Editorial

سیلاب سے تباہی، قومی ایمرجنسی کا اعلان

ملک میں بارش اور سیلاب سے صورتحال سنگین ہو چکی ہے خصوصاً سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں،یہاں بڑے پیمانے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں،ایک کروڑ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ، اب تک 326 بچوں سمیت 903افراد بارش اور سیلاب کی وجہ سے ہم میں نہیں رہے۔ ایک تخمینہ رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ایک لاکھ 25 ہزار گھر تباہ ہوئے ہیں جبکہ 2لاکھ 88ہزار مکانوں کو جزوی نقصان پہنچاہے۔ انفراسٹرکچر کی تباہی بھی ناقابل بیان ہے اور تین ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی تازہ رپورٹ کے مطابق چوبیس گھنٹوں کے دوران طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث 73 اموات اور 82 ہزار 33 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں 93، بلوچستان میں 230، خیبر پختون خوا میں 169، پنجاب میں 164 اور آزاد کشمیر میں37 افراد بارش اور سیلاب کے سبب جاں بحق ہوئے۔گلگت میں 9 اور اسلام آباد میں ایک شخص کا انتقال ہوا۔ سیلاب اور بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں386 مرد، 191 خواتین جاں بحق ہوئیں جبکہ مرنے والوں میں 326 بچے بھی شامل ہیں۔اسی طرح چوبیس گھنٹوں کے دوران بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 710 مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے فراہم کردہ اعدادو شمارکو تو چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن تباہی کے جو مناظر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ رہے ہیں اِن کو دیکھتے ہوئے تکلیف پر ضبط رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس قیامت سی صورتحال میں اداروں کی ہر ممکن امداد کے باوجود متاثرہ افراد کے چہروں پر کرب اور بے بسی نمایاں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہنستے بستے گھر ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں مٹی کے کچے گھروں کا تو انجام یہی ہونا تھا مگر پانی کے ریلے کنکریٹ سے تعمیر پکے گھر، عمارتیں بھی زمین بوس کرکے بہالے جارہے ہیں۔ غریب کسان و ہاری جن کا ذریعہ معاش ہی ذراعت اور مویشی ان کے مال و دولت تھے، لہلہاتے کھیت سیلابی پانی کی نذر ہوئے تو ساتھ ہی مال مویشی بھی بہالے گئے اور مجبور و لاچار متاثرہ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی جمع پونجی و املاک نیست و نابود ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مویشی سیلابی ریلے میں بہتے نظر آرہے ہیں لیکن بے بسی کا عالم یہ ہےکہ انہیں بچایا نہیں جاسکتا۔ وطن عزیز کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جس کوبارشوں یا سیلاب سے محفوظ قرار دیا جائے یہ قیامت صغریٰ تو ہر جگہ ٹوٹ پڑی ہے۔ تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت، پاک فوج، ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی اور متعلقہ محکموں کی مدد سے کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے جان و مال کو محفوظ بنایا جائے۔ پاک فوج کےجوان دن رات سیلاب سے متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے سے اُن کے مالی نقصان کو بھی کم سے کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور اسی کوشش میں ہم بلوچستان میں پاک فوج کے سنیئر افسران کے ہیلی کاپٹر حادثے
کے نتیجے میں جانی نقصان کو بھی برداشت کرچکے ہیںیہی نہیں دوسرے علاقوں میں جاری آپریشن کے دوران بھی پاک فوج کے جوان حادثات کا شکار ہوئے ہیں۔ ریسکیو 1122 کے جوان بھی پاک فوج کے بعد بڑی ہمت کے ساتھ ہم وطنوں کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں اس لیے پاک فوج ہو یا پھر ریسکیو کے جوان، سبھی اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہم وطنوں کی قیمتی جانیں بچارہے ہیں۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی اپنے حصے کا کام اپنے دستیاب وسائل اور مالی مشکلات کے باوجود کررہی ہیں مگر جتنی بڑی آزمائش ہے اس سے گزرنے کے لیے قوم کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ حالات کی سنگینی کی منظر کشی کرنا ممکن نہیں فقط یہی کہا جاسکتا ہے کہ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے جو قیامت ٹوٹی ہے وہ ناقابل بیاں ہے۔ پنجاب حکومت نے اپنے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر کسانوںکا آبیانہ اور دیگر محصولات ختم کردیئے ہیں اسی طرح دوسری صوبائی حکومتیں بھی ہر ممکن حد تک ریلیف دینے کے لیے کوشاں ہیں وفاقی حکومت جانی و مالی نقصان کو دیکھتے ہوئے گھروں کی تعمیر اور بحالی کے لیے فنڈز کا اعلان کرچکی ہے اور تازہ ترین خبروں کے مطابق سیلاب کی صورتِ حال کی وجہ سے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لندن کا دورہ منسوخ کر دیاہے اور انہوں نے سیلاب کی صورتِ حال اور امدادی کارروائیوں سے متعلق اجلاس بلا لیا ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کی پوتی حمزہ شہباز کی بیٹی کی طبیعت ناساز ہے اور وہ لندن میں زیرِ علاج ہیں، جس کے باعث وزیرِ اعظم کو لندن جانا تھالیکن انہوںنے تباہ کن صورتحال کی وجہ سے قطر سے ہی واپسی کی راہ لے لی ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور تمام حکومتوں کے وزرا کو متاثرہ علاقوں میں رہ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی گئی ہے پس ہر ممکن حد تک نقصان سے بچنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ حکومتوں کے علاوہ فلاحی ادارے اور تنظیموں نے بھی متاثرہ افراد کے لیے خشک راشن، ادویات، پینے کا پانی اور دیگر اشیائے ضروریہ کے لیے ملک بھر میں کیمپ لگادیئے ہیں تاکہ جمع شدہ سامان متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرکے اِس کرب ناک حالات سے دوچار ہم وطنوں کے زخموں پر مرہم رکھاجاسکے۔ سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ بھی کم و بیش روز پاک فوج کے آپریشن سے متعلق بریفنگ لے رہے ہیں جو متاثرہ افراد کے لیے دن رات جاری ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پہلے ہی ریلیف فنڈ کا اعلان کردیا ہے اور گذشتہ روز وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے سیلابی صورتحال کو قومی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں غیر معمولی تباہی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قومی جذبہ دکھانا ہوگا، متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے پوری قوم خاص طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کے عطیات کی ضرورت ہے اور بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کی وجہ سے خطیر رقم درکار ہوگی۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس مشکل صورتحال میں تمام ہم وطنوں کو اپنے وسائل اور استطاعت کے
مطابق اس کارخیر میں حصہ ڈالنا چاہیے کہ ہمارے ہم وطن کھلے آسمان تلے مدد کے منتظر ہیں۔ اس لیے بیرون ملک پاکستانی وائر ٹرانسفر، منی سروس بیوروز، منی ٹرانسفر آپریٹرز اور ایکسچینج ہاؤسز کے ذریعے بھی عطیات بھجوا سکتے ہیں، عطیات تمام کمرشل بینکوں میں نقد بھی جمع کروائی جا سکتی ہے جبکہ بینکوں کے ڈراپ باکس میں کراس چیک، موبائل اور انٹرنیٹ بینکنگ، اے ٹی ایمز، اے بی ایف ٹی، راست کے ذریعے بھی جمع کروائے جاسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button