ColumnRoshan Lal

عمران خان ، فنانشل ٹائم اور عارف نقوی .. روشن لعل

روشن لعل

 

لندن سے شائع ہونے والے اخبار فنانشل ٹائمز کے سائمن کلارک نے امریکہ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں فراڈ اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات کے تحت قائم مقدمات میں ملوث عارف نقوی اور پاکستان کی عدالتوں سے صادق و امین کی سند پانے والے عمران خان کی دوستی ، باہمی تعلق اور باہمی لین دین کے متعلق جو کچھ لکھا وہ نہ صرف میڈیا بلکہ عام لوگوں کی گفتگو کا بھی خاص موضوع بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں صرف عمران خان کا حامی اور مخالف میڈیا ہی نہیں بلکہ ان کی حمایت اور مخالفت کی وجہ سے سیاسی طور پر مقسم لوگ بھی اپنے پہلے سے بنائے ہوئے نقطہ نظر کے مطابق اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ عمران خان کے مخالفین میں صرف متعصب ہی نہیں بلکہ انتہائی معتدل لوگ بھی موجود ہیں مگراس کے برعکس ان کے حامیوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن کے پاس اپنے محبوب لیڈر کے لیے تو انتہا درجے کی عقیدت مگر مخالفوں کے لیے نفرت کے علاوہ کوئی دوسرا جذبہ موجود نہیں ۔عمران خان سے انتہائی عقیدت رکھنے والے لوگ کسی دوسرے کو صرف اسی وقت تک بہتر سمجھتے ہیں جب تک وہ ان کے محبوب لیڈر کا وفادار بنا رہے لیکن جونہی کوئی ہلکی سی جھوک کھانے لگے یہ اسے بے رحمی سے راندہ درگاہ بنا دیتے ہیں۔ عمران خان کے عقیدت مند اپنے محبوب لیڈر کے مخالفوں کے لیے چاہے جس حد تک بھی سخت موقف کا اظہار کرتے ہوں مگر عارف نقوی کے لیے ان کا رویہ ہمیشہ ہمدردانہ رہا ہے۔ عارف نقوی کے لیے جب پی ٹی آئی کے آفیشل ترجمان فواد چودھری یہ بیان دیں کہ جس طرح دیوالیہ ہو چکے، بی سی سی آئی بنک کے بانی مرحوم آغا حسن عابدی کے خلاف سازشیں ہوئی تھیں اسی طرح عارف نقوی کے خلاف بھی سازشیں ہورہی ہیں، توان کے اس جذبے کو بدنام زمانہ ابراج گروپ کے سابق سی ای او سے غیر مشروط ہمدردی کے علاوہ کوئی اور کیا سمجھے۔پی ٹی آئی والوں نے عمران خان سے وفاداری کو جس طرح کسی سے نفرت یا محبت کا پیمانہ بنا رکھا ہے ، اگر اس پیمانے کو مد نظر رکھا جائے تو آسانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب بھی عارف نقوی اور ان کے محبوب قائد کے درمیان بڑی حد تک خیر خواہی کے جذبات موجود ہیں۔
عارف نقوی اس وقت فراڈ کے جن الزامات کی زد میںہے، ان کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اس نے کپولا نام کی کمپنی بنا کر فنانسنگ اور ایکویٹی کا بزنس شروع کیا۔ کپولا کی کامیابی کے بعد بھارتی فنانسر بھی اس کمپنی کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس کے بعد کمپنی کو ابراج گروپ کا نام دے دیا گیا جس کا سی ای او عارف نقوی ہی رہا۔ ابراج گروپ میں
سرمایہ کاری کے لیے صرف دنیا کے دیگر ملکوں کے بزنس ٹائیکون ہی نہیں بلکہ مائیکروسافٹ کے بل گیٹس اور ملنڈا بل گیٹس بھی مائل ہوئے۔ بل گیٹس نے پاکستان میں صحت کے شعبہ میں فلاحی منصوبوں پر کام کرنے کے لیے ابراج گروپ کو سرمایہ فراہم کیا۔ جب ایک عرصہ تک ان منصوبوں پر کام کا آغاز نہ ہوا تو بل گیٹس کی کاوشوں سے ابراج گروپ کا آڈٹ کرایا گیا۔ اس آڈٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ جس ابراج گروپ کی طرف دنیا بھر کے سرمایہ کار کھنچے چلے آرہے ہیں اس کی اصلیت فراڈ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ یوں عارف نقوی کا ابراج گروپ جس کی چند برسوں میں دنیا میں دھوم مچ گئی تھی یکایک دیوالیہ ہو گیا۔
ابراج گروپ کے دیوالیہ ہونے کے بعد بل گیٹس نے امریکہ میں عارف نقوی کے خلاف فراڈ کا مقدمہ درج کرایا۔ اس مقدمے میں ہونیوالی پیش رفت کے دوران برطانوی شہری بن چکے پاکستانی نژاد عارف نقوی کی امریکہ حوالکی کا مطالبہ سامنے آنے پر اس نے لندن کی عدالت سے ضمانت حاصل کر لی۔ واضح رہے کہ قبل ازیں یو اے ای کی ایک عدالت عارف نقوی کو اس کی غیر حاضری میں فراڈ کے ایک مقدمہ میں تین سال کی قید سناچکی تھی۔ عارف نقوی کی مشروط ضمانت ہونے پر قانونی ماہرین نے کہا تھا کہ وہ اپنی امریکہ
حوالگی کو دو یا تین برس کے لیے تو التوا کا شکار کرسکتا ہے مگر ایسا ممکن نہیں کہ اسے ہمیشہ کے لیے استثنیٰ مل جائے۔ رواں برس اگست میں عارف نقوی کی ضمانت پر مشروط رہائی کو تین برس ہو جائیں گے۔ عارف نقوی کے متعلق اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس کے خلاف جب بھی کیس کی آئندہ سماعت ہوئی، عدالت اسے امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنائے گی۔
جب عارف نقوی کی ضمانت کا وقت ختم ہوتا ہوا تصور کیا جارہا ہے عین اسی وقت فنانشل ٹائم میں سائمن کلاک کی وہ سٹوری شائع ہوئی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ عمران خان کے سیاسی عروج کے لیے عارف نقوی کی فراہم کردہ اس فنڈنگ نے اہم کردار ادا کیا جو اس نے ان کاروباری سرگرمیوں سے حاصل کی تھی جنہیں اب فراڈ کہا جارہا ہے۔ عارف نقوی پر اسی فراڈ کا مقدمہ امریکہ میں زیر سماعت ہے۔ سائمن نے اپنی سٹوری میں عارف نقوی کے صرف عمران خان سے ہی نہیں بلکہ میاں نوازشریف اور امریکہ کے بارک اوبامہ اور جان کیری جیسے سیاستدانوں سے تعلقات کا ذکر بھی کیا ہے مگر اس سٹوری میں نقوی کے بنائے ہوئے ووٹن کرکٹ کلب کے تحت منعقد ٹورنامنٹ اور اس کی دیگر قابل اعتراض کاروباری سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی مبینہ ناجائز رقم کے شوکت خانم ہسپتال اور پاکستان تحریک انصاف کو منتقل ہونے کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس کا تعلق عمران خان کے علاوہ کسی اور سیاستدان سے نہیں بنتا۔ سائمن کی یہ سٹوری جس وقت شائع ہوئی اس وقت نہ صرف عارف نقوی کی ضمانت ختم ہونے کے دن قریب تصور کیے جارہے ہیں بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف آٹھ سال سے زیر التوا فارن فنڈنگ کیس کے جلد فیصلے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ جولائی 2019 میں آصف علی زرداری نے جیو ٹی وی کے حامد میر کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں عمران اور عارف نقوی کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کچھ یوں کہا تھا پاکستان میں تو صرف کرپشن کا شور مچایا جارہا ہے مگر اصل کرپشن وہ ہے جو ابراج گروپ نے کی ہے اور جب اس کرپشن کی تفصیل سامنے آئے گی تو اس میں عمران خان سمیت اور بہت سے لوگوں کے نام شامل ہوں گے۔ زرداری کا یہ انٹرویو چند منٹ نشر ہونے کے بعد بند کردیا گیا تھا اور پھراگلے کچھ دنوں میں ان کو اور فریال تالپور کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ آصف علی زرداری کے مذکورہ انٹرویو سے کئی سال پہلے خواجہ آصف نے عمران خان پر شوکت خانم کے فنڈز کے استعمال میں بے ضابطگیوں کا الزام لگایا تھا۔ عمران خان نے ان الزامات کے بعد خواجہ آصف پر ہتک عزت کا دعویٰ کیا تھا جو خواجہ آصف نہیں بلکہ عمران خان کی وجہ سے اب تک التوا کا شکار ہے ۔
کرپشن کی ایک کہانی عرصہ دراز سے پاکستان میں زیر زبان ہے اور دوسری کہانی کا بیرونی دنیا میں چرچا ہے ۔ دونوں کہانیوں کا فرق یہ ہے جن لوگوں کو ہمارے ملک میں ہیرو بنایا گیا ہے بیرون ملک کہانیوں میں ان کا کردار ولن کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button