ColumnNasir Sherazi

پیٹ میں چودہ ٹیکے .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

یہ تمثیل نہیں حقیقی واقعہ ہے اور اسی طرح پیش آیا ہے، ماموں کانجن کے نواحی گائوں 557 گ ب بھوجوانہ میں ایک ماں نے اپنے بچے کو لوڈ شیڈنگ کے بعد کمرے سے اٹھایا اور اِسے صحن میں ایک چارپائی پر لٹا دیا، چند ماہ کا بچہ مارے گرمی کے ابھی بیدار نہ ہوا تھا، ماں اُسے کھلی ہوا میں لٹاکر مطمئن ہوگئی اور اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف ہوگئی، ایک کوئے نے کہیں سے برساتی پانی میں بہتا ہوا سانپ پکڑا وہ اُسے پنجوں میں دبائے کسی مناسب مقام پر پہنچ کر اِسے کھانا چاہتا تھا، زندہ سانپ نے اپنی جان چھڑانے کے لیے زور لایا تو کوئے کے پنجوں سے چھوٹ کر عین اُس چارپائی پر گرام جہاں معصوم بچہ سورہا تھا، سانپ نے بچے کوڈس لیا، بچہ نیند سے بیدار ہونے سے قبل ہی ہمیشہ کی نیند سوگیا، قریب بیٹھے بچے کے چچا نے سانپ کو مارڈالا، سیانا کوا قریبی دیوار پر بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا تھا، اُس نے جست لگائی اور مرے ہوئے سانپ کو دوبارہ اپنے پنجوں میں دبوچ کر نظروں سے اوجھل ہوگیا، بچے کو مقامی رورل ہیلتھ سینٹر لے جایاگیا جہاں ڈاکٹروںنے اس کی موت کی تصدیق کردی، بچے کے والدین نے ہیلتھ سینٹر کے عملے پر الزام لگایا کہ انہوں نے بچےکی جان بچانے میں غفلت برتی جبکہ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی مرچکا تھا، اسے بدقسمتی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے، بچے کے والدین غم سے نڈھال ہیں، انہیں کسی پل چین نہیں آتا صبح سے شام تک انہیں لوگ دلاسے دیتے ہیں لیکن انکا دُکھ کم نہیں ہورہا، زخم مندمل ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا۔
مثل مشہور ہے اگر آپ کی قسمت خراب ہے، آپ اونٹ پربیٹھے ہوئے ہیں تو وہاں بھی آپ کو کتا کاٹ لے گا، پی ڈی ایم کے رہنمائوں اور خصوصاً مسلم لیگ نون کے رہنما شہبازشریف کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے، وہ سب ’’فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا‘‘ کی سی صورتحال میں تھے، خان حکومت میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس پر خوب تنقید کرتے اُس میں سو سو کیڑے نکالتے ، رہی سہی کسر ان کے ترجمان ٹی وی کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر پوری کردیتے، انصاف حکومت صفائیاں دیتے دیتے تھک جاتی مگر کوئی انکی بات سننے اور اس پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوتا۔ شیخ رشید اور بعض دیگر حکومتی وزرا سچ بول کر اپنی ساکھ بہتر بنانے کے جنون میں مبتلا ہوگئے اور کھلے لفظوں میں میڈیا پر آکر اپنی ناکامیاں تسلیم کرنے لگے کہ ہاں یہ بات درست ہے ہم ڈیلور نہیں کرسکے، ہمارے پلے کچھ تھا ہی نہیں، ان کا خیال تھا کہ اِس سچ کافائدہ انہیں آنے والے انتخابات میں ہوگا، انہیں فائدہ ہوتا ہے یا نقصان، انتخابات کے نتائج اس کا فیصلہ کریں گے لیکن انتخابات سے قبل پی ڈی ایم نے ایک عجیب فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں انہیں گھیر گھار کراقتدار کے اونٹ پر بٹھادیاگیا ہے، انہیں اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ اونٹ کی پشت پر بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ سکتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے وزیراعظم شہبازشریف ہیں جنہیں روز ایک نیا کتاکاٹ جاتا ہے، کبھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کا کتا، کبھی ڈالر کا کتا، وہ اپنے بچائو کے لیے بہت ہاتھ پائوں مار رہے ہیں لیکن ان کے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی، چند ماہ کے اندر وہ لہولہان ہوکر اقتدار چھوڑ کر نئے عام انتخابات پر رضا مند نظر آسکتے ہیں لیکن ان زخموںکاکیاکریں گے جو انہیں ان کی سیاسی جماعت اور ان کے ساتھیوں کو لگ چکے ہوں گے، وہ عام انتخابات کے لیے مہم سے قبل قوم کو ایک آدھ مرہم کا تحفہ دے کر بہلانے کی کوشش کریں گے لیکن بہلا نہ پائیں گے۔
خان حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کرنے کے حوالے سے آخری ایام میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومت سے جان چھڑانے کی حکمت عملی کو حتمی شکل دی جارہی تھی، اِس اجلاس میں تمام باتوں پر اتفاق ہوگیا تو مسلم لیگ نون کی لیڈر شپ نے تجویز پیش کی کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے بھی کچھ اہم فیصلے ہمیں آج ہی کرلینے چاہئیں کہ آئندہ انتخابات ہم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی طرف سے نہیں بلکہ بطور پی ڈی ایم اتحادی لڑیں گے تاکہ اپنے مشترکہ دشمن کو واضح انداز میں شکست فاش دے سکیں، پیپلز پارٹی اور ان کے اعتماد کے کچھ لیڈروں نے اِس تجویز کی مخالفت کی جس پر اتحاد پارہ پارہ ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے، اِس نازک موقعے پر آصف علی زرداری صاحب نے کہا کہ اگر ہم آج الیکشن کے معاملات میں الجھ گئے تو پھر خان حکومت سے نجات کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے گا لہٰذا بہتر ہے ہم تفصیلات میں الجھنے کی بجائے صرف یک نکاتی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں، اس میں کامیابی کے بعد دیگر معاملات پر غوروفکر کے بعد فیصلے کئے جائیں گے، اس مرحلے پر نوازشریف صاحب کی طرف سے حکومت سے چھٹکارے کے بعد عام انتخابات جلد کرانے کی تجویز دی گئی لیکن پھر سب کو یک نکاتی ایجنڈے کے حصار میں جکڑ کر قدم بڑھانے کا کہاگیا اس آپریشن کے سرخیل جناب آصف علی زرداری ہیں جنہوںنے کمال مہارت سے
سکرپٹ کے مطابق منزل حاصل کی ہے، ان کی طرف سے ہینگ لگی نہ پھٹکری لیکن رنگ چوکھا آگیا ہے، اب پیپلز پارٹی سیاسی رنگ رلیاں مناتی جبکہ پی ڈی ایم کی دیگر سیاسی جماعتیں کف افسوس ملتی نظر آتی ہیں، پی ڈی ایم نے جب پوچھا کہ سب کچھ کرنے کے بعد حق خدمت کیا ملے گا تو کہاگیا تھا کہ قریباً ڈیڑھ برس اقتدار جس میں آپ قوم کی بھرپور خدمت کرکے آنے والے انتخابات میں اپنی جیت کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، نیب کے بخئے ادھیڑ کر اپنے لیے نئی واسکٹیں، نئی شیروانیاں بنانے کی منزل حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے علاوہ بہت کچھ جو فی الحال ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں۔
ہر آنے والا دن سکرپٹ کے نئے پرت کھول رہا ہے، جن سے آشکار ہوتا ہے ڈیفالٹ فقط ایک ڈرامہ تھا، بیس ارب ڈالر کی موجودگی میں کہاگیا کہ ملکی سالمیت خطرے میں ہے، آج اس کا نصف خزانے میں ہے اور ملک محفوظ ہوچکا ہے، جو ملک ڈیفالٹ کرنے والا ہو وہ عام انتخابات کا ہاتھی خرید سکتا ہے، جس کے لیے الیکشن کمیشن نے سات ارب روپے مانگے ہیں۔ لگژری آئٹم پر پابندی عوام کے دبائو پر لگائی اور پندرہ روز بعد اٹھالی گئی، بتایاگیا کہ بیوروکریسی کے زیر استعمال گاڑیاں پرانی ہوگئی ہیں لہٰذا 93نئی گاڑیاں خریدنے کا آرڈرتیار کرلیاگیا ہے، نئی صوبائی کابینہ کے لیے 35نئی کاریں خریدی جاچکی ہیں، ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچے ملک کے گورنر سٹیٹ بینک کی تنخواہ پچیس لاکھ ہوتی ہے جس کے ساتھ اسے آراستہ گھر، دو گاڑیاں، یوٹیلی بل، گھریلو خدمت گار، بچوں کی تعلیم کے لیے مزید رقم اور سینکڑوں لیٹر مفت پٹرول دیاجاتا ہے، وزیروں اور مشیروں کی فوج رکھی جاتی ہے، ڈیفالٹ کی طرف بڑھتے ملک کفایت شعاری صرف کاغذوں میں کرتے ہیں یا عملی طور پر اس کی تصویر کہیں نظر بھی آتی ہے۔
مہنگائی اور لوٹ مار کے کلچر میں خمیدہ کمر عوام سے نہایت درد مندانہ درخواست کی گئی ہے کہ آپ دن بھر میں چائے کا ایک کپ کم کردیں تو ملک ڈیفالٹ سے بچ جائے گا۔ اِس سے زیادہ مضحکہ خیز شاید اور کوئی بات نہ ہوسکے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جو کسی بھی وجہ سے کسی بھی کام کا اہل نہیں رہتا اس کے لیے فوراً مشیر کا منصب گھڑ لیا جاتا ہے، آنے والے مہینے میں اونٹ پربیٹھی حکومت کو کاٹنے کے لیے کئی اور کتے آرہے ہیں۔ نون لیگ حکومت کو پیٹ میں چودہ ٹیکے لگوانے پڑیں گے،نئی کی پھر کوئی گارنٹی نہیں، لندن سے بڑے ڈاکٹر کو بلایا جائے گا لیڈی ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button