Editorial

وزیراعلیٰ کا انتخاب ، فل بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا جائے ،اہم نوعیت کے معاملات پر فل بینچ بیٹھتا ہے ،مسلم لیگ نون اداروں کے خلاف مہم چلانے پر یقین نہیں رکھتی ۔بنیادی طور پر یہ مقدمہ آرٹیکل 63اے کی تشریح کا ہے ،سپریم کورٹ پہلے سے دائر درخواستوں کو یکجا کرکے اسے سنے ،سیاسی واہم نوعیت کے مقدمات کے لیے فل کورٹ کی آپشن ہونی چاہیے تاکہ انصاف ہوتا نظر آئے ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے پانچ سابق صدور لطیف آفریدی،یٰسین آزاد،فضل حق عباسی،کامران مصطفی اور قلب عباس نے بھی یہی مطالبہ دہرایا ہے ۔عدالت کا پانچ اور آٹھ رکنی بینچ آرٹیکل 63اے پر فیصلہ دے چکا ہے ،اب فل کورٹ ہی اس مقدمے کو سنے ،حمزہ شہباز کے وکلاء بھی یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مقدمہ کی ا ہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فل کورٹ بٹھایا جائے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ بارہ کروڑ عوام کے نمائندہ کو اگر گھر بھیجنا ہے تو عدالت درخواست کو سنجیدگی کے ساتھ سنے ۔ ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی اتحاد اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین اپنے وکلاء کے ساتھ سپریم کورٹ جائیں گے،

 

وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کی نظرثانی اور دیگر درخواست کی ایک ساتھ سماعت کی استدعا کی جائے گی۔وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے معاملے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزارت اعلیٰ کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی کی درخواست پر میاں حمزہ شہباز کو آج تک بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کرنے کا حکم دیااورکہا کہ بظاہر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ہمارے فیصلے کے برعکس ہے،ہم چودھری شجاعت کا خط دیکھنا چاہتے ہیں، اگر پارٹی سربراہ کی بات ماننی ہے تو اس کا مطلب پارٹی میں آمریت قائم کر دی جائے۔ جناب چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم دیکھنا چاہ رہے ہیں سپیکر کے ہاتھ میں چٹھی تھی وہ دکھائیں، بادی النظر میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کا عہدہ گہرے خطرے میں ہے اور ڈپٹی سپیکرکی رولنگ سپریم کورٹ فیصلے کے برعکس ہے۔ ہم پیر یا منگل کو فیصلہ سنا دیں گے، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل
ہیں۔سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی پر حکمران اتحاد نے چیف جسٹس سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سےمتعلق مقدمےکی فل کورٹ میںسماعت کامطالبہ کیااور اپنے اعلامیہ میں کہاکہ سپریم کورٹ بار کی نظرثانی سمیت متعلق درخواستوں کوایک ساتھ سنے، انصاف کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ بار کی نظر ثانی درخواست اور دیگر متعلقہ درخواستوں کو عدالت عظمیٰ کے تمام معزز جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ میںایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرکے اس پر فیصلہ جاری کرے، یہ بہت اہم قومی، سیاسی اور آئینی معاملات ہیں، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی بھاری قیمت ملکی معیشت دیوالیہ پن کے خطرات اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

 

آئین نے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی واضح لکیر کھینچی ہوئی ہے جسے ایک متکبر آئین شکن فسطائیت کا پیکر مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت اور اِس کے بعد سیاسی سطح پر ہونے والی پیش رفت کے ساتھ بتانا ضروری ہے کہ متذکرہ معاملے پر سپریم کورٹ کی پہلے روز کی سماعت پر سیاسی قیادت کی طرف سے کئی طرح کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور صرف ایک جانب سے ہی نہیں بلکہ دونوں جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں ، سپریم کورٹ آف پاکستان اِس کیس کا کیا فیصلہ دیتی ہے، اس کے قطع نظر ملک کے سیاسی ماحول میں پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ گرمی محسوس کی جارہی ہے، وزارت اعلیٰ کے دونوں امیدواروں کے پیچھے اُن کی حامی جماعتیں ہیں اور بلاشبہ ضمنی انتخاب کے بعد وزارت اعلیٰ کا معرکہ جیتنے کے لیے جس طرح سرتوڑ کوششیں کی گئی ہیں یقیناً دونوں فریقین فتح کے لیے پر اُمید تھے مگر اب معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سپرد ہے اور یقیناً جس کے حق میں فیصلہ آئے گا وہ فریق خوشی کے شادیانے بجائے گا اور جس کے خلاف آئے گا وہ اپنے تحفظات کا اظہار کرے گا مگر فیصلہ تو ایک ہی فریق کے حق میں آنا ہے اور عدالت نے آئین و قانون کے مطابق دینا ہے تو پھر تمام فریقین کو صبروتحمل کےساتھ آئین و قانون کے مطابق آنے والے فیصلے کا نہ صرف انتظار کرنا چاہیے بلکہ آزاد عدلیہ کے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیےیہی مہذب اور جمہوری معاشرے کی روایات ہیںویسے بھی وطن عزیز کو حالیہ دنوں میں داخلی و خارجی محاذوں بالخصوص معاشی محاذ پر چیلنجز درپیش ہیں اس صورتحال میں وطن عزیز سیاسی عدم استحکام کا قطعی متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کی بجائے کم کرنا ہی حالات کا تقاضا ہے، قومی قیادت کو صف آرائی کی بجائے ڈائیلاگ کے ذریعے معاملات سلجھانے کی طرف جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button