ColumnNasir Sherazi

منظر بدلنے والا ہے! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

قطری خط اور امریکی خط وہ کام نہ کرسکے جو چودھری خط نے کردکھایا ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ چودھری خط کا بھی وہی انجام ہو جو اِس سے قبل دو خطوط کا ہوچکا ہے۔ قطری اور امریکی خطوط تو جعلی قرارپاچکے ہیں، چودھری خط اصل بھی نکلا تو شاید لکھنے والے کی طرح تادیر اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہوسکے، پس اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازکو اعلیٰ عدالت نے ٹرسٹی وزیراعلیٰ کہا ہے۔انکی قانونی حیثیت کا فیصلہ ایک دو روزمیں ہوگا، فیصلہ جو بھی ہو حمزہ شہباز دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے ہیں، وہ ایڈہاک ہوں یا ٹرسٹی، ان کے نام کے ساتھ یہ ضرور لکھا جائے گا، بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ رئیسانی صاحب کے بقول ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی ہو۔

حکومت میں اعلیٰ منصب حاصل کرنے والے اسے کانٹوں کا تاج قرار دیتے ہیں، دراصل ایسا ہرگز نہیں یہ سب کچھ عام آدمی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کہاجاتا ہے، اقتدار، اقتدار ہی ہوتا ہے جعلی ہو یا پھر اصلی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہی وجہ ہے کہ اس کے حصول کیلئے اب صرف پاپڑ ہی نہیں بیلے جاتے بلکہ اور بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے۔

علمائے کرام اپنی تعلیمات میں انسانوں کو نیکی کرنے اور برائی سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں، وہ برائی کے نتیجے میں جہنم ٹھکانہ بتاتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوب ڈراتے ہیں، بادی النظر یوں لگتا ہے جیسے جہنم کا کسی کو کوئی ڈر نہیں رہا۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان عام آدمی کے لیے اب جہنم بنتا جارہا ہے، نیکی کرنے والوں کیلئے جنت کا وعدہ ہے، جہاں ہر مسلمان جانا چاہتا ہے لیکن سب اپنے اپنے ایجاد طریقوں سے، کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ وہ قربانی کے دنبے پر بیٹھ کرپل صراط عبور کرلیں گے اور سیدھے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ مقام فکر ہے دنبہ بھاری بھرکم آدمی کا بوجھ کیسے اٹھائے گا، وہ تو بمشکل اپنی چکی سنبھالتا ہے اور خراما خراما چلتا ہے۔ اس رفتار سے وہ کتنے عرصے میں جنت کے دروازے پر پہنچے گا ، کوئی نہیں بتاسکتا، پاکستان میں انتخابات کے بعد اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے یا عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے وقتی طور پر جنت بنائی جاتی ہے، ہمیشہ اس کے دو کیمپس دیکھنے میں آتے ہیں، ایک حکومت کا دوسرا حزب اختلاف کا۔یا ایک کسی ایک سیاسی دھڑے کا دوسرا کسی دوسرے کا۔ امسال بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا، قومی اسمبلی کے ارکان ہوں یا صوبائی اسمبلی کے، یہ تمام لوگ نہایت نیک اور باکردار ہوتے ہیں، ارضی جنت انہی کیلئے بسائی جاتی ہے، خدا کی بنائی گئی جنت میں کون جائے گا کون رہ جائے گا اس کا فیصلہ تو روز محشر خدا نے کرنا ہے، وقتی و ارضی جنت کے دروازے ہر منتخب فرد کیلئے کھول دیئے جاتے ہیں، دعوت عام دی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ حاصل ہونے کی راہ دکھائی جاتی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقعے پر بھی ایسا ہی ہوا، اصل جنت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں موسم ہمیشہ خوشگوار رہے گا کسی کو کوئی فکر فاقہ ہوگا، گرمی لگے گی نہ پسینہ آئے گا، کوئی بجلی یا گیس کی لوڈ شیڈنگ سے متاثر نہ ہوگا، نہ ہی کسی کے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوں گے، دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی، شراب طہور کی کمی نہ ہوگی، ہمہ وقت خدمت کیلئے حوریں موجود ہوں گی اور ہر حکم بجالائیں گی۔

لاہور میں بنائی گئی دونوں جنتوں کا منیو قریب قریب اصل جنت والا ہی تھا،فرق صرف حرام اور حلال کا تھا، جس کے بارے میں اب کہاجاتا ہے یہ کوئی فرق نہیں، ارضی جنت میں موسم خوشگوار تھا کیونکہ یہ سینٹرلی ایئر کنڈیشنڈ تھی، پائوڈر والادودھ، ڈبے والا اورتازہ دودھ وافر موجود تھا، یہ سہولت بھی موجود تھی کہ اگر کوئی خود دودھ دوہنے کا شوق رکھتا ہے تو بکریاں بھینس موجود تھیں اس لحاظ سے کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا، ڈبے والے شہد کے علاوہ کھلا شہد تھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں شہد کشید کرنے کی سہولتیں موجود تھیں اور سب سے بڑھ کر ہمہ وقت خدمت کیلئے حوریں، جو ان گنت تھیں۔
معروف گلوکار عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اپنے گانے میں بتاچکے ہیں کہ کس طرح جنت کی حوریں ایسے بندے کو بھی دولہا بنادیتی ہیں جو کسی طرف سے بندہ ہی نہیں لگتا، ان دو ارضی جنتوں میں بھی کچھ ایسا ہی تھا، پھول تھے، کلیاں تھیں جو مہک رہی تھیں چٹک رہی تھیں، یہ مہکار و چٹکار تین روزتک جاری رہی، جنت میں مقیم اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کو کڑی حفاظت میں یوں رکھاگیا تھا جیسے چیل سے بچانے کیلئے چوزوں کو مرغی اپنے پروں میں چھپائے رکھتی ہے، تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود چند چوزے اِدھر اُدھر ہوگئے فریقین ایک دوسرے میں کیڑے نکالنے کے ساتھ ساتھ چوزوں کی چوری کا الزام ایک دوسرے پر دھر رہے ہیں۔

عارضی ارضی جنت میں مقیم کچھ دوستوں سے ملاقات کا موقعہ ملا تو انہوں نے بتایا کہ اس برس یہ ان کی تیسری عید تھی، عید الفطر اور عید الاضحی پر ان کا جو خرچہ ہوا، اس تیسری عید پر اس سے کئی گنا زیادہ آمدن ہوئی، مزید براں پہلی دونوں عیدوں پر وہ لطف نہ آیا جو تیسری عید پر آیا، بیشتر مکین دعا کرتے نظر آئے کہ اس برس الیکشن ہوجائیں تو ان کی چوتھی عید بھی ہوسکتی ہے، گمان ہے چوتھی عید پر مہمان نوازی کے تمام سابق ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔

اس موقعے پر ارضی جنت میں مقیم تمام مرد حضرات بہت خوش تھے جبکہ تمام نیک خواتین بہت رنجیدہ نظر آئیں، کچھ بہت سنجیدہ تھیں انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کے آرام و آسائش کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیاگیا اگر ملک بھر میں تحریک انصاف یعنی عمران خان کی حکومت ہوتی تو وہ اس اعتبار سے کوئی کسرنہ چھوڑتے کیونکہ ان کے پاس بہترین ٹیم موجود تھی، جس کا ہر کام میں تجربے کے علاوہ اس کام میں بہت تجربہ تھا، وہ صرف اپنے ایک ٹائیگر عون چودھری یا نعیم الحق کے جانشین کی ڈیوٹی لگادیتے تو وہ کمال کردیتے کسی کو شکایت کا موقعہ نہ ملتا۔

ارضی جنت میں مقیم چودھری و عمرانی گروپ کواعلیٰ عدلیہ سے امید ہے کہ انہیں انصاف ملے گا، اس انصاف کے نتیجے میں پنجاب میں اقتدار بھی ملے گا،خواہ وہ چند روزہ ہی کیوں نہ ہو دوسری طرف شیر تہیہ کئے ہوئے ہے کہ وہ اپنے مخالفین کا خون پی جائے گا، پھر بھرپور نیند سے بیدار ہوکر بوٹیاں نوچ نوچ کر کھائے گااور شام کو آکر ہڈیاں چباجائے گا، شیر کو عبوری نکاح اور دو روزہ دلہن مبارک، چودھری پرویز الٰہی کے سر پر بھائی کا سایہ تو موجود نہیں رہا لیکن ان کے سر کا سائیں سلامت ہے، پنجاب میں انہیں اقتدار ملے نہ ملے انہیں زیادہ فکر نہیں ان کے سائیں کو ایکسٹینشن مل گئی تو بھی ٹھیک، کوئی نیا سائیں آگیا تو بھی ٹھیک، جو نیا سائیں آئے گا وہ بھی ان کا ہی ہوگا نہ ہوا تو یہ اُن کے ہوجائیں گے، بات ایک ہی ہے، تمغہ شجاعت فی الحال حمزہ شہباز کے سینے پر ہے جو واپس بھی لیا جاسکتا ہے۔ پیش خدمت ایک شعر
کسی بھی وقت یہ منظر بدلنے والا ہے
دکھائی دینے لگا ہے اب غبار سے باہر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button