ColumnFayyaz Malik

پولیس ، پولیس اور پولیس ! .. فیاض ملک

فیاض ملک

پولیس اور عوام کے درمیان جو بداعتمادی کا جو پہلو موجود ہے، وہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ جب بھی دو فریقین میں اعتماد کی کمی ہوتووہ ادارے اپنی حیثیت اور ساکھ کو بہتر طور پر پیش نہیں کرسکتے،ایسا نہیں کہ پورے پولیس کے نظام میں اچھے لوگ یا ایسے افراد نہیں جو قانون کی حکمرانی اور شفافیت پر مبنی پولیس نظام کے حامی نہیں۔یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں کریمنل جسٹس سسٹم کا جدید اور اسلامی اقدار پر مبنی نظام سب سے پہلے خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بنایا گیا، آپ نے ایک ایسا پرامن معاشرہ تشکیل دیا، جس کا کوئی ثانی نہیں، عقل آج بھی حیران ہے کہ آپ نے جو اصول وضع کیے، اس کےلیے نہ تو کوئی مشینری چاہیے اور نہ بڑا سا بجٹ۔ اس سسٹم کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ یہ کسی بھی قسم کی مداخلت سے آزاد تھا، آپ کا احتساب کا عمل انتہائی سخت تھااور قانون کی بلاروک ٹوک عملداری تھی۔ قانون سب کےلیے ایک تھا، قانون توڑنے والا کسی بھی رنگ، نسل، ذات، برادری، مذہب کا ہو یا حکومت کے ایوان میں بیٹھا ہو، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں تھا۔

عدل سب کےلیے یکساں تھا، آپ راتوں کو گشت کرتے اور اپنے آفیسرز کو بھی اسکی نصیحت کرتے تھے۔ جب بھی کسی کا گورنمنٹ کےلیے انتخاب کیا جاتاتو سب سے پہلے اسکے اثاثہ جات کا حساب لگایا جاتا اور اگر دوران ملازمت اثاثوں میں کوئی غیر معمولی اضافہ سامنے آتا تواسکو واپس بلاکر اسکی پراپرٹی ریاست ضبط کرلی جاتی تھی۔آپ نے اپنے سٹاف کو رشوت ستانی سے بچانے کےلیے انکی تنخواہیں زیادہ لگائیں۔ آپ نے سختی سے منع فرمایا کہ کوئی افسر رعایا میں سے کسی کو منہ پر تھپڑ نہ مارے، نہ کسی کی ذاتی پراپرٹی ہتھیائے، اگر کوئی ایسا کرتا تو اسکے خلاف آپ خود ایکشن لیتے۔ آپ نے افسروں کو اسوہءرسول ﷺکا حکم دیا جس کا سیدھا سادا مطلب بیک وقت گورنمنٹ آفیشلز اور رعایا میں علم کی ترویج تھا۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں پولیس، تھانہ اور کچہری ایک خوف اور ڈر کا نام ہے،عام شریف آدمی نام سن کر ہی کانو ں کو ہاتھ لگاتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس کے لیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔1857 کی جنگ آزادی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر انگریز راج قائم کیا تھا، برصغیر پاک و ہند میںآبادی بھی بہت زیادہ تھی جس میں مختلف مذہب، رنگ، نسل اور زبان کے لوگ بستے تھے۔ انگریزاس علاقے کو کیسے کنٹرول کرتا؟اس کےلیے اس نے انڈیا ایکٹ نمبر ۵ پاس کرکے پولیس بنائی گئی، جسے امپیریل پولیس کہا گیا۔
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس پولیس کا مقصد عوام کی بھلائی نہیں تھا بلکہ گورا سرکار کے سامراجی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی،اس سامراجی پولیس کی حرارکی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جس میں ایک حصہ آفیسرز میں ڈی ایس پیز، سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈی آئی جیز شامل تھے۔ یہ آفیسرز مقابلے کا امتحان پاس کرتے، جو برطانیہ میں منعقد ہوتا تھا، اسکے بعد انکی مخصوص ٹریننگ ہوتی تب جاکر ان کو برصغیر بھیج دیا جاتا تاکہ وہاں وہ گورے کی حکومت چلاسکیں۔پہلے پہل آفیسرز صرف گورے تھے لیکن بعد میں بھورے آفیسرز بھی تعینات ہونے شروع ہوگئے جو دیکھنے میں بھورے تھے لیکن اندر سے گورے ہی ہوتے تھے۔ ان آفیسرز کو کئی ایکڑوں پر مشتمل بڑے بڑے محل نما دفاتر دیئے گئے تاکہ عوام دفتر آکر اپنی شکایت بھول کر ان کے رعب میں دب جائے، اسے اپنے مسئلے کا ہوش بھی نہ رہے۔
نوکروں کی فوج ظفر موج ایک اشارے کی منتظر اور پروٹوکول ایسا کہ آسمان کو نیچا دکھائے،کیونکہ اس پولیس کا مقصد شہریوں کے مسائل کا حل نہیں تھا، بلکہ ان پر حکومت کرنا تھا۔ اسی کا دوسرا حصہ ایس ایچ او، کانسٹیبل اور سپاہی پر مشتمل تھا، جو زیادہ تر فیلڈ کے لوگ تھے۔ ایس ایچ او یا تھانے دار کو علاقے کا مالک سمجھا جاتا تھا۔کسی کو دبانا ہوتا، کسی سے کوئی سیاسی یا معاشی فائدہ لینا ہوتا یا کسی کو اپنے فائدے کےلیے استعمال کرنا ہوتا، انگریز سرکار اسی ایس ایچ او کی ہی خدمات لیتی تھی، اور اگر ہم آج کی پولیس کی بات کریں توقیام پاکستان سے لیکر آج تک ہر حکومت نے پولیس کلچر کو بہتر کرنے اور پولیس کو عوام کا خادم بنانے کے پرکشش نعرے لگائے مگر پولیس کو عوام کی فلاع کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کےلیے استعمال کیا،
اپنے مخالفین کو دبانے کےلیے ہر حربہ اختیار کیا اور اس طرح پولیس بدنام بھی ہوتی رہی،سیاسی تقرریاں اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پرکشش عہدوں پر پوسٹنگ حاصل کرنے والے پولیس افسران نے بھی وقت کے حکمرانوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہر صاحب اقتدار نے اپنے ذاتی مفادات کےلیے استعمال کرنے کے باوجود پولیس کو کسی بھی قسم کی سہولت دینے سے عاری نظر آئے۔یہی وجہ ہے کہ جب موجودہ بجٹ میں بھی جب ڈسپیریٹی الائونس دینے کی بات پہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے محکمہ پولیس کو مسترد کیا تو حکومت کی بے حسی پہ کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی ،ماضی میں بھی جب پیپلز پارٹی کے دور میں جب باقی محکموں کی تنخواہ 50 فیصدبڑھائی گئی تو پولیس کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ پولیس کی تنخواہ پہلے ہی زیادہ ہے۔ بہر حال پولیس کے ساتھ تنخواہ ڈبل کرنے کا جو کھیل کھیلا گیا وہ بھی سب کو پتہ ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ پولیس کی ڈیوٹی 24 گھنٹے ہے،انکی عید، شب برات، سرکاری اعلانیہ چھٹی، رمضان، تروایح اور نہ ہی اتوار کو چھٹی ہوتی ہے بس ہر وقت صرف صرف ڈیوٹی ہی ڈیوٹی ہوتی ہے۔کسی جگہ کوئی سکیورٹی مسئلہ ہے تو پولیس، الیکشن، احتجاج،دھرنا، مارچ، ایکسیڈنٹ ، امتحان، جرائم کی بیخ کنی، عدالت میں نظم و نسق، آگ لگنا، دریا میں ڈوبنا، بچوں، عورتوں، بڑوں ، بوڑھوں، سرکاری املاک، جانوروں کی حفاظت ، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں پولیس کو ڈیوٹی کرائی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پولیس نے جدھر بھی ڈیوٹی پر جانا ہے اپنی جیب سے خرچ کرکے جانا اور آنا ہے، نہ کوئی کھانے کا خرچہ اور نہ کرایہ کی مد میں کچھ وصولی جبکہ اسکے مقابلے میں دیگر محکمہ جات کے ملازمین اگر ایک دن کی بھی ڈیوٹی کر ے گا تو ان کو اس کے الگ سےپیسےملتےہیں،
میڈیکل کی سہولیات جو ہمارے حکمران پولیس کو دے رہے ہیں۔ وہ بھی اس جدید دور میں ایک تماشا ہی ہے اور موجودہ مہنگائی میں زندگی کا توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اور حکومت نے پولیس کو مکمل نظر انداز کر دیا ہے۔ مگر پولیس کے حقوق کی بات کون کریںگا ،صرف محکمہ پولیس کیساتھ ہی زیادتی کیوں !بہر حال یہ بھی سچ ہے کہ ہر حکمران نے اپنے ذاتی ، جماعتی اور خاندانی مفادات کو طاقت فراہم کرنے اور مخالفین کے خلاف اس پولیس کو ہتھیار بنانے کا جو کھیل کھیلا ہے یا کھیل رہے ہیں وہ بنیادی خرابی کی جڑ ہے۔
مگر یہ سب کریں گا کون ، کیونکہ اگر پولیس سیاسی طور پر آزاد ہوگئی توسیاستدانوں کی سیاست ختم ہوکر رہ جائے گی، جوکہ وہ کسی بھی صورت چاہے گا ہی نہیں ،بہر حال آج بھی اگر حکومت قانون سازی کی مدد سے پولیس کو ایک کارآمد محکمہ بنائےجوکہ اس وقت ملک کی ضرورت بھی ہے کیونکہ ایک پولیس کے ٹھیک ہونے سے ہمارا معاشرہ انصاف، ترقی اور امن پسندی کے راستے پر گامزن ہوکر سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے، جو ہر کسی کو نظر آئے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button