ColumnNasir Naqvi

مہنگائی کو بریک کیسے لگے گی؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

یہ شور ہر بجٹ کا دستور ہے کہ حکومت اسے متوازن اور اپوزیشن اسے الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتی ہے۔ لہٰذا اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا، سابق وزیراعظم اسے عوام دشمن کہہ کر اسے نامناسب اور ناانصافی گردان رہے ہیں لیکن چیمبر آف کامرس کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے متوازن بجٹ آ ہی نہیں سکتا تھا۔ تاہم پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ حکومت پھنس چکی ہے۔ آئی ایم ایف کسی قسم کا ریلیف نہیں دے گی۔ امپورٹڈ حکومت خودکشی کے راستے پر گامزن ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے ناراض ہے کیونکہ سابق حکومت نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی، اب معاملات کو سلجھانے کے لیے مزید سخت فیصلے کرنا ہی ہمارا واحد آپشن ہو گا۔ نتیجہ مہنگائی میں اضافہ یعنی مہنگائی، مہنگائی اور مہنگائی،

جبکہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا فرمان ہے کہ پچھلی حکومت کے مقابلے میں یہ بجٹ کئی طرح کی نمایاں بہتری دکھا رہا ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم کے زیادہ مواقع فراہم کیے گئے ہیں جن میں بلوچستان کو خاص طور پر اہمیت دی گئی ہے۔ معاشی طور پر ان کمزور طبقات کو سبسڈی دی گئی، سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ امیروں کے غیر پیداواری اثاثوں پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، حکومتی دعویٰ ہے کہ ہم نے بُرے حالات میں تنخواہ طبقے کو ٹیکس کے لیے چھ لاکھ سے بڑھا کر 12لاکھ پر محدود کر دیا ہے۔
سرکاری لوگوں کی تنخواہ میں پندرہ فی صد اضافہ اور پنشن بھی پانچ فی صد بڑھائی ہے۔ غریبوں کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ دو دو ہزار روپے مہنگائی سے نمٹنے کے لیے دئیے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی دعوے اور اپوزیشن کی تنقید سب غلط ہے۔ اس لیے کہ بجٹ 2022-23ء تو مکمل آئی ایم ایف زدہ ہے اس کا تمام تر کام سابق حکومت کا کارنامہ ہے مع آئی ایم ایف معاہدے ۔ موجودہ حکومت نے عالمی ادارے سے دو ماہ میں صرف رابطوں اور ’’منت ترلہ‘‘ پروگرام سے کچھ سہولیات مانگی ہیں اور جن باتوں پر وہ ناخوش ہیں ان پر ابھی تک ’’منت ترلہ‘‘ باقی ہے جس کے لیے تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت کو کسی قسم کی رعایت نہیں دے گی جبکہ وزارت خزانہ نے اگلے مالی سال میں جی ڈی پی کی ترقی کی رفتار چھ فیصد نہ ہونے کی وجہ مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی کمی کو قرار دیا ہے۔
موجودہ مالی سال میں بھی ملکی معیشت کی رفتار چھ فیصد تک رہنے کی توقع کی جا رہی ہیں لیکن حالات چغلی کھا رہے ہیں کہ سب قیاس آرائیاں ہیں، نہ معاشی شرح چھ فیصد ہو گی اور نہ ہی مہنگائی گیارہ فیصد رہ سکے گی، فی الحال بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن نے رقم کی قدروقیمت پر بُرا اثر ڈالا ، جس طرح درآمدی چیزیں مہنگی ہوئیں اور مجموعی طور پر مہنگائی بڑھی، یہی وہ وجوہات ہیں کہ جن کی بناء پر حکومتی اور تحریک انصاف کے معاشی ماہرین حقیقی گفتگو کرنے کو تیار نہیں۔
موجودہ حکومت نے وقت گزاری کے لیے بجٹ کو نہ صرف اپنا نام دے دیا بلکہ اسے مقررہ وقت میں پاس بھی کرائے گی، فی الحال پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں یہ کام مشکل نہیں، آسانی سے بجٹ پاس ہو جائے گا لیکن اس کے اثرات سے بچنے کے لیے شہباز شریف کو مناسب حکمت عملی ترتیب دینی پڑے گی کیونکہ گروتھ ریٹ کا ٹارگٹ حاصل نہ کرنا، زبردست تنقید کی راہیں کھولیں گی۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اقتصادی اور معاشی ترقی کے لیے سب سے پہلی ضرورت توانائی ہے لیکن پاکستان میں توانائی کا بحران موجود ہے۔ دوسری جانب اب تک حکومت شرح سود میں چار فیصد اضافہ کر چکی ہے اور مستقبل میں شرح سود میں اضافے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا لہٰذا نئے سال میں کسی بھی صورت گروتھ ریٹ کا چھ فیصد رہنا ممکن ہی نہیں، پھر کیا ہو گا؟ حکومت مہنگائی پر کیسے بریک لگائے گی؟ اس بارے میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا ورنہ مثبت نتائج کسی بھی طرح نہیںنکل سکیں گے۔
موجودہ حالات آسان نہیں، بجٹ کے فوراً بعد پنجاب میں ضمنی انتخاب کا میدان سج رہا ہے وہاں پی ٹی آئی اور نون لیگ کا بڑا امتحان ہو گا۔ تحریک انصاف حکومت گرانے، بین الاقوامی سازش اور مہنگائی کے نام پر ’’ ٹف ٹائم‘‘ دے گی لیکن نون لیگ مہنگائی سے نجات دلانے کی دعویدار ہونے کے باوجود لوگوں کے طعنے سہے گی اس لیے کہ جواز اور تاویلیں سننے کو کوئی تیار نہیںہو گا ویسے بھی سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد یہ مخبری پہلے ہی کر چکے ہیں کہ ایک خفیہ ادارے نے کئی ماہ پہلے عمران خان کو اطلاع دے دی تھی کہ آپ کا اقتدار رخصت ہونے والا ہے، لہٰذا عمران نے آئی ایم ایف سے بے رحم معاہدے کر کے ملک اور آنے والوں کے لیے ’’بارودی سرنگیں‘‘ بچھا دیں۔
اسے مخالفت برائے مخالفت کہا جائے یا کچھ اور نام دیا جائے ، عمرانی دور کے زیر عتاب صحافی و اینکر سلیم صافی تو صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ایماء پر پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا عمران خان صاحب کے ایک خفیہ معاہدے میں شامل تھا، اگر اسے الزام سمجھا جائے تو پھر بھی تبدیلی سرکار اس حوالے سے بہت سے شواہد چھوڑ گئے، ان میں سب سے بڑا ثبوت اسد عمر کی بطور وزیر خزانہ چھٹی اور ان کے کئے گئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا عبدالحفیظ شیخ کی نگرانی میں ری شیڈول ہونا ہے۔ اگر اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ راز کھل کر سامنے آ جائے گا کہ تحریک انصاف کے دماغ کہلانے والے اسد عمر نے آسان شرائط پر معاہدے کے لیے آئی ایم ایف کو رضامند کر لیا تھا۔ اب یہ بات وہی بتا سکتے ہیں کہ پھر اس گستاخی پر کس نے انہیں وزارت خزانہ سے چھٹی کرائی اور معاہدہ ری شیڈول کرایا، اس سارے قصّے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بے توقیری اور اس قومی ناانصافی کے بعد بھی اسد عمر حکومت میں ہی نہیں ، عمران خان کے پیاروں میں بھی شامل رہے اور ابھی تک ہیں۔
موجودہ حالات میں مہنگائی کے ماروں پر پٹرول بم کی بمباری کے ساتھ بجلی کا کرنٹ بھی لگایا جا رہا ہے۔ ماہر اقتصادیات اسے حکومتی مجبوری بھی کہہ رہے ہیں اور غلط منصوبہ بندیوں کا شاہکار بھی، لیکن حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ بے حال عوام کی حالت ایسی غیر ہو چکی ہے کہ بجلی کے جھٹکے جان میں جان نہیں آنے دے رہے بلکہ جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ لوڈ شیڈنگ نے کاروبار حیات بھی تباہ کر دیا اور انسانی حیات بھی۔ عالمی موسمی تبدیلیوں کے باعث گرمی بھی قہر بنی ہوئی ہے اور آلودگی کے ثمرات میں بارشیں بھی اپنے شیڈول سے اِدھر اُدھر ہو گئی ہیں ایسے میں بھلا یہ سوال کیوں نہ پیدا ہو کہ مہنگائی پر بریک کیسے لگے گی؟ حسب سابق حکومت سابق حکمرانوں کے آئی ایم ایف معاہدے اور قرضوں کی ادائیگی کو بنیاد بنا رہی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ عمرانی معاہدے سے پہلے بھی یہی معاملات تھے ،
ہمارے حکمرانوں کا کام ہی قرضے لینا اور موج میلہ ہے لہٰذا انہیں اس عوام اور ووٹر کی بھی فکر کرنی چاہیے کہ جن کے کندھوں پر سوار ہو کر تخت اقتدارکے مزے لوٹتے ہیں، جمہوریت اور جمہوری اقدار کے راگ الاپتے ہیں لیکن اقتدار ملتے ہی سب بھول جاتے ہیں کیونکہ ہماری اور آپ کی یادداشت کمزور ہے اور ہم سب غم روزگار کے ہاتھوں ہر روز پہلے سے زیادہ مجبور ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ہم حالات سے تنگ آکر یہ سوال تو کرتے ہیں کہ مہنگائی پر بریک کیسے لگے گی؟ لیکن ذمہ داروں کا گریبان پکڑنے کی ہمت رکھتے ہیں نہ ہی طاقت، اس راز سے حکمران بھی خوب واقف ہیں، ریاست مدینہ اور نئے پاکستان کے دعویدار خان اعظم پناہ گاہیں اور لنگر خانے بنا کر چلے گئے اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں نے ووٹوں کو عزت دلوا کر گنتی سے اکثریت ثابت کر کے اقتدار حاصل کر لیا، ووٹرز اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں کہ ہماری کسی کو فکر ہی نہیں ۔
اب حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ جس کے منہ میں جو آتا ہے بک رہا ہے ،کسی ادارے یا صاحب منصف کی بھی کسی کو پرواہ نہیں، واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ہمیں صبرو تحمل سے اپنی نئی نسل کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہی نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے استحکام کے لیے تحریک آزادی پاکستان کے جذبے سے اپنے بزرگوں کی طرح قربانی دینی ہے۔ ہمیں یہود و نصاریٰ کی عالمی سازشوں سے محفوظ رہتے ہوئے پاکستان اور پاکستانیوں کو محفوظ بنانا ہے۔ انتشار اور منتشر ہونے سے بچنا ہے لیکن یہ سارا کام تو وطن پرست رہنمائوں کے بغیر ممکن نہیں، صالح قیادت کب اور کیسے ملے گی؟ جس سے سادہ لوح عوام جینے کے لیے صرف ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء مانگ کر تازہ دم ہو کر قومی دھارے میں آ سکے، انہیں عزت نفس کے ساتھ فی کس آمدنی میں اضافہ اور روزگار کے مواقع چاہئیںکیونکہ پناہ گاہوں اور لنگر خانے ان کی حقیقی ضروریات کا متبادل ہرگز نہیں، پاکستانی قوم بڑی جفا کش اور باصلاحیت ہے یہ ہر آزمائش میں پوری اتری لیکن مہنگائی نے اس کا جینا محال کر دیا اس لیے حکمرانوں سے اس کا سوال ہے کہ مہنگائی پر بریک کیسے اور کب لگے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button