Editorial

غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اور عام پاکستانی

 وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ایندھن کی قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا،چار سال میں ترقی کا عمل مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں روکا گیا،ملک ترقیا تی منصوبوں میں مزید تعطل کا متحمل نہیں ہو سکتا،جن لوگوں نےعالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ اب تک کا بدترین معاہدہ کیا اور واضح طور پر غلط معاشی فیصلے کیے، وہ کیسے بے گناہ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں، ہم ان معاشی مشکلات سے جلد نکل آئیں گے۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے بخوبی واقف ہیں،انہوں نے ایندھن کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جس پر پی ٹی آئی حکومت نے دستخط کیے تھے، وہ جلد ہی پی ٹی آئی، آئی ایم ایف معاہدے کی تفصیلات کے حوالےسے عوام کوآگاہ کریںگے اور ان معاشی مشکلات سے نکل آئیں گے۔انہوں نے عندیہ دیا کہ تفصیلات جلد سامنے لائی جائیں گی۔وزیر اعظم شہباز شریف کے بیان کے بعد ہم وزارت پاور ڈویژن کی سمری کا حوالہ دینا چاہیں گے، سمری کے مطابق ملک بھر کےکمرشل فیڈرز کو شام 7 سے رات 10 بجے تک بند کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے،
کمرشل فیڈرز پر دن کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔کمرشل فیڈرز کی بندش سے 5 ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی، شام 7 سے رات 11 بجے تک ٹیوب ویل کے فیڈر ز کی بجلی بھی بند رکھنےکا فیصلہ کیا گیا ہے، ٹیوب ویل والے فیڈرزبند ہونے سے 3 ہزار میگا واٹ بجلی کی بچت ہوگی۔ تاجروں کی جانب سے دکانیں جلد بند کرنے سے انکار پر متبادل تجاویز تیار کی گئی ہیں۔وزارت پاور ڈویژن نے بجلی کے بلوں پر صارفین کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اور لیسکو کے نام جاری کئے گئے نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا کہ رواں ماہ جون سے بجلی صارفین کو دی جانے والی 5 روپے فی یونٹ سبسڈی کو ختم کردیا گیا ہے اور  وزارت پاور ڈویژن کے اس اقدام کے بعد لیسکو کے بجلی صارفین کو رواں ماہ کے بجلی کے بل بھاری رقوم کے ساتھ بھیجے جانے کا امکان ہے۔
حکومتی ٹیم کے ارکان خواجہ آصف، قمرزمان کائرہ، مصدق ملک اور اسعد محمود کا
کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو ملک دیوالیہ ہونے کی طرف چلا جاتا، ہمیں پانی، بجلی اور گیس کے استعمال میں کفایت شعاری کرنی ہوگی۔ مہنگائی اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے، مہنگائی سے زیادہ وہ ممالک متاثر ہو رہے ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے، روس اور یوکرین تنازع کی وجہ سے مہنگائی بڑھی۔ہمیں پانی، بجلی اور گیس کے استعمال میں کفایت شعاری کرنی ہوگی، دنیا بھر میں کہیں رات ایک بجے تک کاروبار نہیں ہوتا، دنیا بھر میں ساڑھے 6 بجے دکانیں بند ہوجاتی ہیں، ہمیں شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار پر کام کرنا ہوگا، ملک کا غریب طبقہ اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے، موجودہ مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔قمرزمان کائرہ نے کہا کہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو ملک دیوالیہ ہونے کی طرف چلا جاتا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ مجبوری میں کرنا پڑا، حقائق عوام کے سامنے ہیں ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہ تھا،
پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کمزور معاہدہ کیا، حکومت اور قومی اداروں نے اپنے بجٹ میں کٹوتی کی، گزشتہ حکومت کی طرح عوام کو جھوٹے خواب نہیں دکھائیں گے۔وزیراعظم شہبازشریف نے ایندھن کی قیمتوں کے متعلق واضح طور پر کہا ہے کہ قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا اور وہ جلد حقائق عوام کے سامنے لائیں گے۔ دوسری طرف حکومتی ٹیم نے وزرا نے بھی ایسا ہی موقف اختیار کیا ہے اور توانائی کی بچت کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اِس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ وزارت پاور ڈویژن کی سمری منظور کرلی جائے گی اور کاروبار کے نظام الاوقات پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔ بلاشبہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ سابقہ اور اُس سے پہلی حکومتوں کے طے کردہ معاملات موجودہ حکومت کے لیے بھی درد ِ سر بنے ہوئے ہیں اورقومی سطح پر اصلاحات اور ایسے سخت فیصلوں کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس سرکار مہنگی کررہی ہے جبکہ ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان ہے جو متوسط اورغریب طبقے کو شدید متاثر کررہا ہے، کوئی مثال نہیں ملتی کہ فلاں چیز حالیہ چند مہینوں میں متعدد بار مہنگی ہونے سے رہ گئی ہو یا پھرعام پاکستانی کی دسترس میں ہو۔ مخلوط حکومت کا موقف ہے کہ سابقہ حکومت کے معاہدوں کی وجہ سے حکومت سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہے،
سابق حکومت کا موقف رہا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے قرض اور اُن کا سود اُتارنے کی وجہ سے وہ عوام کو ریلیف نہیں دے سکی۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ عوام کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں۔ عام اور غریب پاکستانی کا قرض لینے میں کوئی کردار تھا نہ ہی اُن قرضوں سے اُس کے پلے کچھ پڑا لیکن آج اُن قرضوں یا اُن کے سود کی ادائیگی کے لیے عوام کو منتخب کرکے سارا بوجھ اُسی عوام پر منتقل کرنا قطعی قرین انصاف نہیں ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران صرف پٹرول، گیس، بجلی ہی ناقابل برداشت حد تک مہنگی نہیں ہوئی بلکہ ہر اِن کے نتیجے میں ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔
لوگوں کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں اُن پر یہ مہنگائی جان لیوا سے کم نہیں۔ ہم قطعی یہ نہیں کہتے کہ عوام کو سبسڈی پر ہی زندہ رکھا جائے بلکہ ہمارا موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ عوام کی معاشی استطاعت اور معیار زندگی میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ سبسڈی کے محتاج ہی نہ رہیں۔ ریاست اپنی رٹ تسلیم کرائے اور مصنوعی گرانی کرنے والوں کو نشان عبرت بنائے۔ بلاشبہ بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز کی لاگت میں اضافہ ہونا تھا لیکن جتنا اضافہ حالیہ دنوں میں سامنے آچکا ہے یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھااس لیے عوام پریشان حال اورریلیف کے منتظر ہیں، تین بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ سبھی کے لیے حیران کن ہے، بجلی کی قیمت اِس دوران کئی مرتبہ بڑھ چکی ہے اور اِس کے اثرات انڈسٹری سمیت ہر گھر پر منفی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔
لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا مشکل ہوچکا ہے تو دوسری طرف انڈسٹریز والے پریشان ہیں کہ وہ مہنگے ایندھن کے ساتھ کیا کام کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے پینگیں بڑھانے کی بجائے اِس سے نجات حاصل کرنے کی راہ تلاش کی جائے کیونکہ جب تک ہم آئی ایم ایف کے ساتھ رشتے میں بندھے رہیں گے عوام زبوں حال اور انڈسٹری تباہی کے دہانے کی طرف بڑھتی رہے گی۔ زندگی کے ہر شعبے میں اصلاحات نافذ کی جائیں اور اُن پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے اور اِس ضمن میں مزاحمت یا دبائو کو سیاسی مفاد کے لیے قطعی قبول نہ کیا جائے۔ لیکن سب سے پہلے عام پاکستانی کی فی کس آمدن میں اضافہ کرنے پر غور کیا جائے تاکہ لوگ معاشی بحرانوں سے آزاد ہوکر ملکی تعمیر و ترقی کے لیے خود کو سامنے لاسکیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق رواں سال وفاقی بجٹ کا چالیس فیصد قریباً سود کی ادائیگی کی مد میں چلاجائے گا،
اگر موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے ایک اور پیکیج لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اگلے بجٹ کا قریباً نصف سود کی مد میں جانے کا امکان ہے۔ پس دیگر اخراجات مختص کرنے کے بعد عوام کے لیے کچھ نہیں بچتااس لیے قومی سطح پر ڈائیلاگ کیا جائے اور سبھی سٹیک ہولڈرز ملک و قوم کے مفاد میں فیصلہ کریں، کیونکہ عوام پر مزید معاشی بوجھ لادنا قطعی دانشمندانہ فیصلہ نہ ہوگااور اِس کے سیاسی نقصان سے بھی سیاسی قیادت بخوبی آگاہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button