Ali HassanColumn

 بدحال عوام کے خوش حال سیاست دان .. علی حسن

علی حسن
الیکشن کمیشن پاکستان نے ارکان پارلیمنٹ کے 2021 کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے اثاثوں کی مالیت 14کروڑ 21 لاکھ روپے ہے اوراِن کے پاس زمان پارک اور میانوالی میں وراثتی گھر ہیں جبکہ ان کو تحفے میں ملنے والا بنی گالہ کا گھر300 کنال کا ہے۔ عمران خان کے پاس بھکر میں تین وراثتی جائیدادیں ہیں ۔ نیگرینڈ حیات ٹاور میں دو اپارٹمنٹس کے لیے ایک کروڑ 19 لاکھ روپے ایڈوانس دیا ہوا ہے۔ بنی گالہ کے گھر کی اضافی تعمیر ایک کروڑ 14 لاکھ روپے جبکہ لاہور میں زمان پارک کے گھر کی تعمیر پر 4کروڑ 86 لاکھ کے اخراجات آئے ہیں۔بینک میں363ملین روپے ہیں۔ ان کے دو ڈالر اکائونٹ میں 329 ڈالر بتائے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اثاثوں میں چار عدد بکریاں بھی دکھائی ہیں جن کی مالیت دو لاکھ روپے ہے۔
انہوں نے پانچ لاکھ روپے کی مالیت کا فرنیچر بھی دکھایا ہے۔ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پاک پتن میں431 کنال اراضی کی مالک ہیں، پاکپتن کے موضع مانیکا میں ان کی 52 کنال جبکہ موضع پیر غنی میں379 کنال اراضی ہے۔ بشریٰ بی بی کی اوکاڑہ میں267 کنال اراضی بھی ہے جبکہ وہ بنی گالہ میں تین کنال پر محیط گھر کی مالکن بھی ہیں۔ وزیر اعظم اور صدر مسلم لیگ نون شہباز شریف 10کروڑ کے اثاثوں کے مالک ہیں ، شہباز شریف کے پاس لندن میں ایک کروڑ37 لاکھ مالیت کی پراپرٹی ہے ،لندن میں موجود ان کا بینک اکاؤنٹ خالی ہے جبکہ پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں 20 لاکھ روپے موجود ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ذمے 14 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ وہ اپنے صاحبزادے سلمان شہباز کے تین کروڑ 39 لاکھ روپے کے مقروض ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق وزیر اعظم کی اہلیہ تہمینہ درانی 57 لاکھ کے اثاثوں کی جبکہ اہلیہ نصرت شہباز 23 کروڑ کے اثاثوں کی مالک ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری 71 کروڑ 42 لاکھ کے اثاثوں کے مالک ہیں ۔آصف زرداری پاکستان میں 20پراپرٹیز کے مالک ہیں ،ان کی پانچ جائیدادیں وراثتی ہیں جبکہ وہ ایک کروڑ 66 لاکھ روپے مالیت کا اسلحہ بھی رکھتے ہیں ۔ وہ 6 گاڑیوں کے مالک ہیں ، آصف زرداری بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں رکھتے۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف 100تولے سونا، ایک کروڑ 72 لاکھ روپے کیش کے ساتھ 5 پراپرٹیز کے مالک ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹ میں 4 لاکھ 70 ہزار روپے موجود ہیں۔ وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو ایک ارب60کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں ، بلاول بھٹو دبئی میں دو بنگلوں کے مالک ہیں ایک بنگلہ انہیں وراثت میں جبکہ دوسرا تحفے میں ملا ہے۔ بلاول بھٹو کے پاس پاکستان میں19 جائیدادیں ہیں ، وہ 6کروڑ68 لاکھ روپے کیش رکھتے ہیں،ان کے پاس بیرون ملک 150 تولہ سونا ، 7 قیمتی گھڑیاں ہیں ، بلاول نے دبئی میں سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی 4 پراپرٹیز ہیں جن کی مالیت 37 لاکھ روپے ہے جبکہ ان کی ملکیت میں 2 گاڑیاں بھی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر عمر ایوب کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 19کروڑ روپے ہے۔ مسلم لیگ نون کے ایاز صادق کے اثاثوں کی کل مالیت 24کروڑ 81 لاکھ روپے ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کی پاکستان میں 7 جائیدادیں ہیں جن کی مالیت 4کروڑ 18 لاکھ روپے ہے۔ بینک اکاؤنٹ میں 10کروڑ 68 لاکھ روپے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی ناروال اور رحیم یار خان میں مجموعی طور پر تین جائیدادیں ہیں۔
ان کے پاس 15 تولہ وراثتی سونا اور بینک میں 3 لاکھ 24 ہزار روپے ہیں جبکہ ان کے پاس
2 لاکھ 65 ہزار روپے کیش بھی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب کے اثاثوں کی مالیت 2کروڑ 45 لاکھ روپے جبکہ حماد اظہر کے اثاثوں کی مالیت 40کروڑ 20 لاکھ روپے ہے۔ مراد سعید کے پاس اپنا مکان نہیں ہے۔ ان کے پاس کار اور پندرہ تولہ سونا ہے۔ بنک میں تین ملین روپے کے بتائے گئے ہیں۔ پرویز خٹک کے اثاثوں کی مالیت 167 ملین اور بنک میں30 ملین روپے ہیں۔ ان کے ذمہ 25 ملین سے زائد کا قرضہ بھی ہے۔
کمیشن نے تفصیلات باضابطہ طور پر اپنی ویب سائٹ پر ابھی تک درج نہیںکی ہیں۔ ان کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ جن حضرات کو کسی بھی رکن کے بارے میں تفصیلات مطلوب ہوں تو وہ کمیشن کو باقائدہ درخواست دیں گے جس کے بعد سرٹیفائڈ معلومات جاری کی جائے گی۔ ان تفصیلات کو ویب سائٹ پر نہ رکھنے کی بظاہر کوئی وجہ اس لئے سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ یہ معلومات ماضی میں فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے اور معلومات ویب سائٹ پر نہ ڈالنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کسی بات کی تو پردہ داری ہے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ پاکستانی عوام کے منتخب اراکین دولت مند ہیں ۔ وہ مفلوک الحال نہیں کہ عوام کے لیے پانی کی ایک سبیل تک تو بناتے نہیں ہیں۔ کوئی ہسپتال، کوئی ڈسپنسری، کوئی تعلیمی ادارہ، غرض ہر کام کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں غربت کی انتہا ہے۔ لوگوں کو پینے کے لیے پانی تک میسر نہیں۔ کہیں بھی ان لوگوں نے ایک ٹیوب ویل نہیں لگایا۔ ان میں سے کتنے ہوں گے جو چولستان اور تھرپارکر میں لوگوں کو درپیش سخت ترین صورت حال کا جائزہ لینے پہنچے ہوں۔
غیر سرکاری تنظیموں کے تحت جو لوگ خدمت خلق کے حوالے سے کام کرتے ہیں وہ عوام سے چندے جمع کرتے ہیں۔ سندھ میں بلاول میڈیکل کالج، بختاور میڈیکل کالج، آ صفہ میڈ یکل کالج ، غلام محمد مہر میڈیکل کالج، وغیرہ وغیرہ قائم ہوئے ہیں لیکن ان اداروں کی تعمیر میں ان لوگوں کا سرے سے کوئی کردارہی نہیں۔ کسی بھی سیاسی رہنماء یا سیاست دان نے ملک بھی میں کسی بھی علاقے میں ایک پرائمری سکول بھی قائم نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی بر سر اقتدار ہونے کی وجہ سے پارٹی کے قائدین کی اولادوں کی خوشنودگی کے لیے اداروں کو ان کے ناموں سے موسوم کر دیتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں کو وہ کھیپ اب نظر نہیں آتی جو عوام پر اپنا پیسہ خرچ کیا کرتے تھے ۔
کسی نا معلوم شاعر کی نظم سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ ’’ اے میرے دیس کے لوگو، شکایت کیوں نہیں کرتے، تم اتنے ظلم سہہ کر بھی بغاوت کیوں نہیں کرتے۔ یہ جاگیروں کے مالک، لٹیرے کیوں چنے تم نے، تیرے اوپر تیرے جیسے حکومت کیوں نہیں کرتے۔ یہ بھوک، افلاس، تنگ دستی تمہارا ہی مقدر کیوں، مقدر بدلنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے ۔ میرے منصف تمہارے فیصلوں سے مجھے کیا حاصل، جو میرا کیس ہے اس کی سماعت تم کیوں نہیں کرتے۔ اگر تسلیم کرتے ہو، میری باتیں مدلل ہیں، تو پھر تم میرے موقف کی حمایت کیوں نہیں کرتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button