ColumnNasir Naqvi

ہم دو،ہمارے دو .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
ہم سب وسائل اور مسائل کی باتیں ہر وقت کرتے ہیں لیکن یہ سوچنے کی کوشش نہیں کرتے کہ مسائل پر قابو پانے کے لیے وسائل میں کیسے اور کس قدر اضافہ کیا جا سکتا ہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اور آپ اس بات کے عادی ہو چکے ہیں کہ یہ تمام ذمہ داری حکمرانوں کی ہے لہٰذا انفرادی طور پر کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں، حالانکہ انسانی فطرت میں ہر شخص اپنے محدود وسائل میں جیسے تیسے اپنا گھر چلا رہا ہے لیکن ہم اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی اپنا فرض نہیں سمجھتے، جبکہ اسلام دین حق نے فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے ہر شخص کی ذمہ داری فکس کر دی ہے۔ حکم ہے کہ زکوٰۃ، خیرات ہی نہیں، صاحب ثروت لوگ اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی فکر کریں بلکہ ہمسایہ بھی دوسرے ہمسائے کے لیے فکرمند رہے کہ کہیں وہ بھوکا تو نہیں سویا، حکمرانوں اور صاحبِ اختیار کے لیے بھی یہی فلسفہ ہے کہ اس کے دائرۂ کار ، ریاست میں اگر کتا بھی بھوکا رہا تو قابل گرفت وہی ہو گا، یہ بھی تاکید موجود ہے کہ کارِ خیر اور فلاحی کاموں کی ابتداء گھر، خاندان، محلے اور اپنے علاقے سے شروع کرو، سوچیں اگر اس پر عمل ہو جائے ہمیں دوسروں کی تکلیف اپنی تکلیف محسوس ہونے لگ جائے، ہم صرف اپنے حصّے کا کھائیں اور باقی ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں تو سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہماری توندیں ختم ہو جائیں گی۔ ہوٹل ہو یا کہ کوئی تقریب، ہماری پلیٹیں ایسے اوورلوڈ ہوتی ہیں جیسے ہم زندگی کا آخری کھانا انجوائے کررہے ہوں، مزے کی بات ہے کہ اگر کھانا وافر نہ ہو تو پیچھے رہ جانے والے شرما شرمی سے انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور پہلا حملہ آور خوراک کا دشمن حملہ آور گروپ سجا سجایا کھانا ایسے اجاڑ کر اپنی پلیٹ بھر لیتا ہے جیسے کسی کھڑی فصل میںکوئی ناپسندیدہ جانور گھس جائے اس صورت حال میں زیادہ سے زیادہ دس پندرہ منٹ فاتحین ادھوری پلیٹیں چھوڑ کر میٹھے پر دوسرا حملہ کر دیتے ہیں، ایسے میں ایک صاحب کو زردے پر قلفہ ڈال کر کھاتے دیکھا تو خاموش نہیں رہ سکا۔
میں نے پوچھا! یہ کیا ہو رہا ہے حضرت؟
بولے!حملہ آوروں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں، پیٹ تو بھرنا ہے ہم بھی تو بھوکی قوم میں شامل ہیں۔
دوسری طرف دیکھا تو ایک صاحب خالی پلیٹ رکھتے ہوئے دوست سے مخاطب تھے کہ ’’یار قوم نے پلیٹیں بھر بھر کر کھانا ضائع کر دیا، ہماری قسمت میں نہیں، کشمیری چائے کے چسکے لگائو اور کھانا گھر جا کر کھا لیں گے۔
دوست بولا!یاریہ کیا بات ہوئی، میزبانوں کو ’’توجہ دلائو نوٹس دو‘‘ خود انتظام کریں گے۔
پہلے صاحب نے کہا ’’یار اس کا کیا قصور ہے کہ ہم اس کو پریشان کریں۔ دوست تو عزت افزائی کے لیے بلائے جاتے ہیں۔ اب لوگوں کو تمیز نہیں تو وہ کیا کرے۔
دوست کہنے لگا ’’سر جی اسے پتا تو لگے کہ مہمان کھانا کھائے بغیر چلے گئے۔
پہلے صاحب نے جواب دیا ’’اسے شرمندہ نہیں کرنا، دراصل اس کا انتظام پورا تھا ، بارات ہی گوجرانوالہ پہلوانوں کے شہر سے آئی تھی۔
دوست نے غصے میں کہا ’’یہ کیا بات ہوئی؟ جب ہاتھی پالنا ہو تو دروازے بھی بڑے رکھے جاتے ہیں۔
پہلے صاحب بولے ’’چلو میں تمہیں اچھا سا کھانا کھلاتا ہوں، یہاں تماشا نہ لگائو، دوستوں کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔
میں اس صورت حال پر محظوظ بھی ہوا اور رنجیدہ بھی، اس لیے کہ ہماری اجتماعی سوچ ایسی ہی ہے ہمیں اپنے پیٹ کی فکر ہے خواہ کسی کے پیٹ پر ’’لات‘‘ ہی کیوں نا مارنی پڑے۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر یہ معاملات اس حد تک بگڑے کیسے؟ کیا کوئی حل ہے کہ اب یہ مسئلہ ناقابل علاج ہو چکا ہے؟ کچھ دیر بعد دل و دماغ اس بات پر متفق ہو گئے کہ وسائل بڑھنے چاہئیںپھرخیال آیا کہ وسائل بڑھ بھی گئے تو آبادی کا بے قابو جن اسے بھی ہڑپ کر جائے گا۔ پھر سے دل و دماغ پر زور دیا، ضرب جمع تقسیم کر کے حاصل ضرب دیکھنے کی کوشش کی، پھر بھی کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن تھوڑی دیر بعد دل و دماغ نے حل ڈھونڈ نکالا، دلیل یہ تھی کہ اگر بنگلہ دیش کے بنگالی کثیر اولاد کے فارمولے کو چھوڑ کر ’’ہم دو،ہمارے دو‘‘ کے اصول پر کاربند ہو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہم تو مدتوں سنتے رہے ہیں ’’کم بچے۔ خوشحال گھرانہ‘‘ پھر سوچ منتشر ہو گئی کہ اگر یہ کوئی آسان فارمولا ہے تو اب تک اس پر عمل کیوں نہیں ہو سکا؟ ماضی کی حکومتوں نے بھاری بھرکم بجٹ بھی خرچ کیا لیکن سب بے نتیجہ رہا، آخر کیوں؟
دل و دماغ بولے ’’اسلام اور اسلامی حکومت‘‘ میں نے جواب دیا کہ اسلامی جمہوری پاکستان آئینی طور پر ہے لیکن روزِ اوّل سے پاکستان دوسری اسلامی ریاستوں کی طرح نہیں، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایاجاسکتا لیکن اسلام میں قبل از وقت  خاندانی منصوبہ بندی کی پابندی نہیں، البتہ نقطۂ آغاز کے بعد اس کے خاتمے پر سختی سے پابندی ہے بلکہ اسے قتل کہا گیا ہے پھر دماغ نے دل سے سوال کیا کہ کیابنگلہ دیش مسلم اکثریتی ملک نہیں؟
جواب ملا !وہاں کا مولوی اور مذہبی گروپ قبل از اولاد منصوبہ بندی کا قائل ہو چکا ہے۔
دل نے دماغ سے پوچھادلیل سے پاکستان میں بھی مذہبی قوتوں کو رضا مند نہیںکیا جا سکتا؟
میرے دل و دماغ کی تکرار کا فی دیر تک جاری رہی، لیکن مثبت جواب نہیں مل سکا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے مذہبی ذمہ داران ضدی اور اکھڑ ہیں، کچھ اعتدال پسند خاندانی منصوبہ بندی کو جائز اور وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں لیکن مخالفین زیادہ شدت پسند ہیں اس لیے قومی خزانے سے خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بڑھتی ہوئی آبادی کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا، موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ درآمدات پر کچھ عرصے کے لیے پابندی عائد رکھی جائے۔ مختلف انداز میں امن عامہ کی بہتری سے دوست ممالک کی مدد سے بیرونی سرمایہ کاری کے راستے تلاش کئے جائیں، عوامی جمہوری چین کا قسمت پلٹ منصوبہ ’’سی پیک‘‘ تیز کیا جائے۔ خارجہ پالیسی پر خصوصی توجہ دے کر نہ صرف ناراض دوستوں کا اعتماد بحال کیا جائے بلکہ مزید ممالک سے تجارتی معاہدے کیے جائیں، مقامی لوگوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ جونہی سی پیک کے صنعتی زون بنیں، ان سے روزگار کے بھرپور فائدے اٹھائے جا سکیں، یقیناً ہمارا آزمودہ دوست ملک ہے ۔ سی پیک کے بعد پاکستان سے اس کا رشتہ مضبوط ترین ہو جائے گا پھر بھی روسی شمولیت سے گیس اور پٹرول کی مد میں سہولت حاصل کی جائے۔ ’’ہمت مرداں، مدد خدا‘‘پاکستان میں باصلاحیت افراد کی کمی ہرگز نہیں، تاہم بہتر مستقبل کے لیے انہیں ہنر مند بنانے کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا خاتمہ حکومت اور عوام کو مل کرکرنا ہو گا، وسائل یقیناً بڑھائے جا سکتے ہیں اور بڑھائے جائیں گے بھی، لیکن انہیں ہڑپ کرنے والے آبادی کے جن کا گلا بھی دبانا ہو گا، مستقل بنیادوں پر نہیں تو بھی اس کی اہمیت کو فوری سمجھنے کی کوشش رواں رکھی جائے،اجتماعی مفادات اور ملکی استحکام کی خواہش جب ہی پوری ہو گی جب ہم اور آپ ہی نہیں، پوری قوم اس بات کی قائل ہو جائے گی کہ ’’ہم دو،ہمارے دو‘‘ہمیں اولاد نرینہ کی خواہش یا رحمت کی تلاش میں لڑکے لڑکیوں کی تعداد نہیں بڑھانی اس لیے کہ اولاد لڑکی ہویا لڑکا، اولاد ہی ہوتی ہے، مالک کائنات کی مرضی و منشاء پر ہمیں اطمینان کا اظہار کرنا ہو گا کیونکہ یہ سب اس کی ہی دین ہے۔ رستم زماں بھولو پہلوان جیسے اولاد کی نعمت سے محروم رہے، ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کا نعرہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ اور ہم محدود وسائل میں بھی انہیں ایک اچھا ذمہ دار انسان اور پاکستانی بنا سکتے ہیں۔ زیادہ بچوں کی صورت میں اگر درست تربیت نہ کر سکے تو دین اور دنیا دونوں کے ملزم ٹھہریں گے۔ اس لیے صرف سوچیں نہیں، اس فکر کو ملک و ملت کے روشن مستقبل کے لیے دوسروں تک بھی پہنچائیں۔’’ہم دو،ہمارے دو‘‘ کم وسائل میں بہتر زندگی گزارنے کا سکہ بند فارمولا،اب تو تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ حضرت انسان بھی عالمی درجہ حرارت میںبلندی کا سبب ہیں لہٰذا ماحول، قدرتی وسائل اور عالمی حدت کو آبادی پر کنٹرول کر کے بچایا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button