ColumnHabib Ullah Qamar

بی جے پی کی گستاخیوں پر مسلم امہ کا ردعمل .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر
بھارت میں بی جے پی لیڈروں کی طرف سے شان رسالت ﷺ میں گستاخیوں کے خلاف دنیا بھر میں مسلمان ملکوں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے جس پر انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کو اس وقت سفارتی بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، بحرین، قطر، عمان، کویت ، ایران اور دیگر اسلامی ملکوں کی طرف سے بی جے پی لیڈروں کی گستاخیوں کی مذمت کی گئی اور ان پر واضح کیا گیا کہ مسلمان ناموس رسالت ﷺ میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔مختلف مسلمان ملکوں نے بھارتی سفراء کو طلب کر کے بھی احتجاج کیااورہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے۔اسی طرح عرب ممالک میں موجود بھارتی شہریوں کو واپس بھجوانے کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں۔ بھارت میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے جہاں گائے ذبیحہ کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات، جگہ جگہ مسلم کش فسادات پروان چڑھانے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو بلا وجہ گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے،
حجاب پر پابندیوں ، تاریخی مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے اورلو جہاد کے نام پر نوجوانوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہیں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام، مسلمانوں اورپیغمبر اسلام محمد ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیوں کا سلسلہ بہت بڑھ چکا ہے۔ بی جے پی ترجمان نوپور شرما اور دہلی میڈیا چیف نوین جندل کی طرف سے گستاخی کے یہ واقعات اچانک نہیں ہوئے۔بھارت کی حکمران جماعت میڈیا کو خاص طور پر اس مذموم مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور روزانہ ٹی وی چینلز پرمتنازعہ موضوعات کے حوالے سے ٹاک شوز اور دوسرے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اپنی غیرجانبداری دکھانے کے لیے بعض مسلمانوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے لیکن گستاخ اور متعصب اینکرز کی طرف سے مسلمانوں کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتااور ان کے مائیک بند کرکے زبردستی خاموش کروا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب ہندو انتہا پسند لیڈروں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
ابھی حال ہی میں بھارتی ٹی وی چینل ٹائمز نائونے تاریخی جامع مسجد گیان واپی کے صحن میں مبینہ طور پر شیولنگ برآمد ہونے جیسے ایک متنازعہ موضوع پر مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں بی جے پی ترجمان نوپور شرمانے حصہ لیا اور اینکرنویکا کمارکے سوال پر گیان واپی مسجد کے موضوع سے ہٹ کر پیغمبر اسلام محمد ﷺ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی شان میں (نعوذباللہ) توہین آمیز کلمات کہے۔ بی جے پی لیڈر کی طرف سے جب ٹی وی چینل پر شان رسالت ﷺ میں گستاخی کا ارتکاب کیا جارہا تھا ٹی وی اینکر نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی یہ کہا کہ ان کا چینل بی جے پی لیڈ رکے توہین آمیز بیان سے اتفاق نہیں رکھتا۔ یعنی دیکھنے والوںنے صاف محسوس کیا کہ گستاخ نوپور شرما کو اس گستاخی کے حوالے سے ٹی وی اینکر کی بھی حمایت حاصل تھی۔ عام طور پر کسی ٹی وی چینل پر اگر کوئی نازیبا بیان بازی کرے تو چینل اس سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے اور اس قبیح فعل کی مذمت کی جاتی ہے لیکن اینکر نویکا کمار نے اس سلسلہ میں مکمل طور پر خاموشی اختیار کی لیکن جب تنازعہ کھڑا ہوا اور بھارتی مسلمانوں سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کا آغاز ہوا تومذکورہ ٹی وی چینل نے بین الاقوامی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پروگرام کا ویڈیو اپنے چینل سے غائب کر دیا۔
بھارتی میڈیا کی طرف سے اسلام، قرآن اور ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے گستاخانہ رویہ مستقل وتیرہ بن چکا ہے۔ وہ منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو پروان چڑھاتے ہیںاور ہندوانتہاپسندوں کے نظریات پھیلانے کے لیے ان کے آلہ کار ہونے کا کردار ادا کیا جاتا ہے لیکن جب مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کیا جاتا ہے تو کچھ دیر کے لیے اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ گویا بھارتی ٹی وی چینلز صحیح معنوں میں ہندوانتہاپسند تنظیموں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مسلم علماء کرام اور تنظیموں کی جانب سے یہ مہم چلائی جارہی ہے کہ ہندوستانی ٹی وی چینلز پر ہونے والے پروگراموں میں شرکت ہی نہ کی جائے کیوں کہ مسلمان لیڈروں کو مذاکروں میں بلانے کا مقصد بھی انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔
بھارت میں کسی ہندوانتہا پسند لیڈر کی طرف سے یہ پہلی مرتبہ گستاخی نہیں کی گئی ۔ ہندو مہا سبھا کے لیڈر کملیش تیواڑی نے بھی شان رسالت ﷺ میں گستاخی کی تھی جس پر کئی دن تک لاکھوں بھارتی شہریوںنے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا تھا لیکن مودی سرکار کی طرف سے آج تک اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ ایسے ہی ہولی، دیوالی اور دوسرے ہندووانہ تہواروں کے مواقع پر پٹاخوں میں قرآن پاک کے صفحات استعمال کیے جانے کی خبریں آئے دن منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر تو ہندوانتہا پسندوں کی جانب سے اسلام، قرآن اور شان رسالتﷺ میں گستاخیاں معمول بن چکی ہیں۔ جب کبھی احتجاج بڑھتا ہے تو دکھاوے کے لیے ایک ، دو لوگوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن اگلے ہی دن یہ لوگ بی جے پی اور آر ایس ا یس کے جلسوں میں سٹیج پر ہار پہنے دکھائی دیتے ہیں، یعنی ہندوانتہا پسند مسلمانوں کا قتل اور شان رسالت ﷺ میں گستاخیاں مقبولیت اور پروٹوکول حاصل کرنے کے لیے بھی کرتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل جن بی جے پی لیڈروںنے گستاخیاں کی ہیں انہیں بھی سرکاری سطح پر بھرپور سکیورٹی فراہم کی گئی ہے اور مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد بھی انہیں گرفتارکرنے کی بجائے محض دنیا کو دکھانے کے لیے عہدوں سے معطل کرنے کا رسمی اعلان کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی اگر عرب دنیا کی طرف سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ اور ہندوستانی شہریوں کو واپس انڈیا بھجوانے کے مطالبات زور نہ پکڑتے تو مودی سرکار کی طرف سے یہ اقدام بھی نہ اٹھایا جاتا۔ بھارتی لیڈروں کی طرف سے شان رسالتﷺ میں گستاخیوں پر عرب ممالک نے جس غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا ہے یہ لائق تحسین ہے اور دوسرے اسلامی ملکوں کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ اسلامی دنیا سے تحفظ حرمت رسولﷺ کے حوالے سے آج جو مضبوط آوازیں اٹھ رہی ہیں اس میںبلاشبہ سابق وزیراعظم عمران خان کا بھی اہم کردار ہے جنہوںنے اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر شان رسالت ﷺ میں گستاخیوں کے خلاف بھرپور آواز بلند کی اور امت مسلمہ کی غیرت وحمیت کو جگانے کی کوشش کی۔
مسلم ملکوں کے عوام اور مذہبی تنظیمیں شروع دن سے مطالبہ کرتی آرہی ہیں کہ مسلمان ملکوں کے حکمران بین الاقوامی سطح پر کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی کو جرم قرار دلوائیں اور اس کی سزا کا قانون پاس کروائیں وگرنہ انتہاپسند صلیبی ،یہودی اور ہندو گستاخانہ حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے لیکن افسوس کہ اس سلسلہ میں محض مذمتی قراردادیں تو پاس کی جاتی رہی ہیں مگر شان رسالتﷺ میں گستاخیاں رکوانے کے لیے عملی اقدامات نہیں کئے جاسکے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اگر کوئی سورج کی طرف منہ کر کے تھوکنے کی کوشش کرے گا تو اپنا ہی لباس گندا کرے گا۔ نبی ﷺ کی حرمت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اللہ رب العزت نے انہیں جو بلند مقام عطا کیا ہے دشمن اسے کسی طور کم نہیں سکتا ، البتہ مسلمانوں کا فرض کہ وہ حرمت رسول ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے صحیح معنوں میں اہل ایمان ہونے کا ثبوت دیں۔مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ دشمنان اسلام پر دوٹوک انداز میں واضح کریں کہ اگر انہوںنے قرآن پاک کی بے حرمتی اور نبی اکرمؐکی شان اقدس میں گستاخیاں بند نہ کیں تو وہ ان کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات قائم نہیں رکھ سکتے اور نا ہی بین الاقوامی معاہدات کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اسی طرح اقوام متحدہ میں گستاخانہ خاکوں سے متعلق قرار داد پیش کی جائے۔ اگر وہ انبیاء کی توہین جرم قرار دیکر سزا کا قانون پاس نہیں کرتی تومسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فی الفور اس سے الگ ہو جائیں اور اپنی الگ اقوام متحدہ بنائیں۔ مشترکہ دفاعی نظام، اپنی الگ کرنسی اورعالمی عدالت انصاف تشکیل دیں۔ اگر یورپی یونین بن سکتی ہے تو اسلامی یونین بناکرکیوں نبیﷺکی حرمت کا دفاع نہیں کیا جا سکتا؟۔یہ قرآن کا حکم ہے کہ کتاب اللہ کی بے حرمتی اور شان رسالتؐ میں گستاخیاں کرنیوالے بدبختوں سے دوستانہ رویے نہیں رکھے جاسکتے۔تحفظ حرمت رسول ﷺکے لیے ہر مسلمان اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔مسلمان ملک شان رسالتﷺمیں گستاخیاں روکنے کے لیے عملی کردار ادا کریں، اس سے آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل ہوں گی اور اللہ تعالیٰ ان کی حکومتوں اورمسلم خطوں و علاقوں کی بھی حفاظت فرمائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button