تازہ ترینخبریںصحتصحت و سائنس

ہیپا ٹائٹس کی نئی قسم دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے، ڈبلیو ایچ او

اس وقت دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں میں ایک خطرناک اور پراسرار بیماری کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے جسے ڈبلیو ایچ او نے ہیپاٹائٹس کی نئی قسم قرار دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ یورپ سے شروع ہونے والی "ہیپاٹائٹس” کی پُراسرار قسم اب تک دنیا بھر کے30 ممالک تک پھیل چکی ہے اور اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد650 تک جاپہنچی ہے۔

ہیپاٹائٹس کی پراسرار قسم رواں برس اپریل کے آغاز میں ابتدائی طور پر برطانیہ میں بچوں کے اندر پائی گئی تھی جس کے بعد مذکورہ وائرس امریکا سمیت چند یورپی ممالک میں بھی پایا گیا۔

تاہم اب مذکورہ مشکوک قسم دیگر ممالک تک پھیل گئی ہے اور اس متاثرہ ممالک کی تعداد 30 جب کہ بچوں کی تعداد 650 تک جا پہنچی۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ بچوں کے جگر کو سخت متاثر کرنے والی ہیپاٹائٹس کی قسم کے کیسز میں مارچ اور مئی کے درمیان نمایاں اضافہ ہوا اور متاثرہ بچوں کی تعداد 650 تک جا پہنچی۔

اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ مذکورہ پراسرار قسم سے متاثرہ 650 میں سے 70 سے زائد بچے ایسے تھے، جن کا ہنگامی بنیادوں پر جگر کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

مذکورہ وائرس سے سب سے زیادہ برطانیہ میں بچے متاثر ہوئے ہیں، جہاں متاثرین کی تعداد 220 تک جا پہنچی ہے، دوسرے نمبر پر امریکا ہے، جہاں یہ تعداد 115 تک پہنچ چکی ہے۔

اب تک "ہیپاٹائٹس” کی مذکورہ پُراسرار قسم کے کیسز یورپ، ایشیا، امریکا، مشرق وسطیٰ کے 30 ممالک میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ خطرناک پراسرار قسم کے پانچ کیس جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ میں بھی سامنے آئے ہیں جب کہ اس کے کیسز جنوبی کوریا اور انڈونیشیا سمیت سنگاپور میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

ہیپاٹائٹس” کی مذکورہ پُراسرار قسم کے پانچ مشتبہ کیسز فلسطین میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ اسرائیل میں اس کے12 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

اب تک مذکورہ وائرس برطانیہ، امریکا، فرانس، بیلجیم، بلغاریہ، میکسیکو، ڈنمارک، سویڈن، اسپین، سلواکیہ، آئرلینڈ، ناروے، جاپان، اٹلی، سربیا اور یونان میں بھی رپورٹ ہوچکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ماہرین مذکورہ وائرس کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں تاہم تاحال اس کی مکمل تشخیص نہیں ہوسکی اور مذکورہ وائرس اکتوبر2021 سے بچوں میں پھیلنا شروع ہوا۔

اس سے قبل بھی ماہرین نے کہا تھا کہ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ جن بچوں میں پراسرار بیماری کی تشخیص ہوئی، انہوں نے کسی بھی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا اور وہ پہلے صحت مند زندگی گزار رہے تھے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ بعض بچوں میں بیماری کی شدت اتنی سنگین پائی گئی کہ ہنگامی بنیادوں پر ان کے جگر کا ٹرانسپلانٹ کرنا پڑا، کیوں کہ ان کے جگر فیل ہوچکے تھے۔

فوری طور پر ماہرین کو ہیپاٹائٹس کی مذکورہ پُر اسرار قسم سے متعلق کوئی بھی ایسے شواہد نہیں ملے، جن سے بیماری کی ابتدا اور اس کی نوعیت کا علم لگایا جا سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہیپاٹائٹس کا وائرس جگر کو متاثر کرتا ہے اور مرض بڑھ جانے سے ہیپاٹائٹس کینسر میں تبدیل ہوجاتا ہے، مذکورہ پراسرار وائرس بھی بچوں کے جگر کو سخت متاثر کر رہا ہے، تاہم اس وائرس پھیلنے کی وجوہات کا فوری طور پر علم نہیں ہوسکا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button