صحت

کینسر میں مبتلا ڈاکٹر کا عظیم کارنامہ، دنیا حیران رہ گئی

بنیادی طور پر دماغی سرطان ایک ایسے کینسر کو کہا جاتا ہے کہ جو دماغ کے خلیات میں ہی شروع ہوا ہو اس کو انگریزی میں پرائمری برین کینسر بھی کہا جاتا ہے۔

دوسری جانب اگر سرطان جسم کے کسی دوسرے حصے جیسے جگر یا چھاتی وغیرہ سے نکل کر دماغ پر حملہ آور ہوا ہو تو اسے ثانوی دماغی سرطان کہا جاتا ہے تاہم بروقت اور درست تشخیص کے ذریعے کینسر کا کامیاب علاج کسی  حد تک ممکن ہے۔

دماغ کے جان لیوا کینسر میں مبتلا ایک آسٹریلوی ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر خود پر ایک تجربہ کیا اور کینسر کا نیا طریقہ علاج دریافت کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق رچرڈ سکولر اور جارجینا لانگ جِلد کے کینسر کے ماہر ڈاکٹرز ہیں۔ جارجینا لانگ نے جب رچرڈ سکولر کے دماغ کے اسکین دیکھا تو دونوں کو اپنے دل ڈوبتے ہوئے محسوس ہوئے۔

کسی بھی عام شخص کے لیے یہ دماغ کا ایک معمولی سا اسکین تھا مگر یہ دونوں ڈاکٹرز جانتے تھے کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔

پروفیسر سکولر کے اسکین رپورٹ میں سیدھی جانب اوپری طرف کچھ موجود تھا جو باقی دماغ کے باقی حصوں سے زیادہ ہلکا اور دھندلا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ریڈیالوجی کا ماہر نہیں ہوں لیکن میں جانتا تھا وہ ٹیومر (کینسر) تھا اور جلد ہی اس بات تصدیق بھی ہوگئی۔

پروفیسر سکولر کو کوئی عام ٹیومر نہیں بلکہ خطرناک ترین ٹیومرز میں سے ایک گلیو بلاسٹومس‘تھا۔ اس کینسر کے شکار افراد عموماً ایک سال سے بھی کم عرصہ ہی جی پاتے تھے مگر ہمت ہارنے کے بجائے دونوں ڈاکٹروں نے ناممکن کو ممکن بنانے کی ٹھان لی اور اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے نکل پڑے۔

آج جلد کے کینسر کے علاج کے میدان میں سب ان دونوں ڈاکٹروں کی خدمات کو تسلیم کرتے ہیں۔

آج دنیا بھر میں جو بھی شخص ’میلانوما‘ نامی کینسر کی قسم کی تشخیص یا علاج کرواتا ہے تو وہ میلانوما انسٹیٹیوٹ کی بدولت ہے جس کی سر براہی یہ دونوں ڈاکٹر ہی کر رہے ہیں۔

پچھلی ایک دہائی کے دوران اُن کی ٹیم کی ’امیونوتھراپی‘ پر کی گئی تحقیق نے میلانوما کے شکار مریضوں کی قسمت بدل دی ہے۔ ’امیونوتھراپی‘ جسم کے اپنے مدافعتی نظام کو کینسر کے خلیوں کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

میلانوما سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی شرح اب لگ بھگ 50 فیصد ہے یعنی اس کا شکار ہونے والے 100 میں سے 50 مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں۔ پہلے یہ شرح محض 10 فیصد ہوا کرتی تھی۔ اب یہ طریقہ علاج کینسر کی دوسری اقسام کی علاج کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس طریقہ علاج نے ان دونوں ڈاکٹروں کو قومی ہیرو بنا دیا ہے۔ تقریباً ہر آسٹریلوی شہری کسی نہ کسی ایسے شخص کو جانتا ہے جو اُن کے کام سے فیضیاب ہوا ہے۔ پروفیسر لانگ اور پروفیسر سکولر کو مشترکہ طور پر ’آسٹریلین آف دا ایئر‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button