نئی دہلی کی سڑکوں پر ایک اور داغ
قادر خان یوسف زئی
نئی دہلی کے شمالی علاقے اندر لوک کی سڑکوں پر نماز جمعہ ادا کرنے کے دوران، ایک پولیس سب انسپکٹر نے نمازیوں کو سجدے کی حالت میں لات ماری، جس کی حالیہ وائرل ویڈیو نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا ہے اور بھارت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے طرز عمل پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ معمول کی نماز کے اجتماع کے دوران پیش آنے والے اس واقعے نے تنقید کی آگ بھڑکا دی ہے، مقامی لوگوں نے اندر لوک پولیس سٹیشن کے باہر احتجاج کیا اور سوشل میڈیا پولیس کی کارروائی کی مذمت اور دوہرے معیار کے الزامات کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بجا طور پریہ ایک انتہا پسندی کا وہ چہرہ ہے جس کی وجہ سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو شدید دبائو کا سامنا ہے اور انہیں بھارت میں اُن ہی حالات کا سامنا ہی جیسی تقسیم ہندوستان کے وقت تھی۔ اس وقت بھی مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی نفرت انگیز تعصب پر مبنی مہم چلائی جا رہی تھی جس نے دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی ۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے اور عدم برداشت اور تشدد کے سائے میں مودی سرکار انتخابات میں اتر رہی ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف جو مہم قیام پاکستان سے قبل چلائی جا تی رہی وہ اب بام عروج پر پہنچ چکی ہے۔ یہ رویہ انتہائی تشویش ناک سا ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مذہبی اکائیوں کو اپنے بقا و سلامتی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے اور ریاستی پالیسی مودی سرکار کو کسی کی پروا نہیں۔
وائرل ویڈیو میں، پریشان کن سفاکیت کے ایک منظر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ جب پرامن نماز میں مصروف افراد کو اس پولیس کے ایک رکن کی طرف سے جسمانی حملے کا نشانہ بنایا جاتا ہے جسے ان کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا۔ بہت سے لوگ صرف قطاروں میں نماز پڑھ رہے تھے، ان نمازیوں نے چٹائیاں سڑک کے کنارے بچھی ہوئی تھیں، جب وہ غیر ضروری جارحیت کا نشانہ بن گئے۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جو نہ صرف ضمیر کو جھنجوڑ دیتی ہے بلکہ بھارتی معاشرے میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور مساوات اور انصاف کے اصولوں کے بارے میں بھی گہرے سوالات اٹھاتی ہے۔ یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ حساسیت کہاں ہے؟ سیکولر قوم کے بنیادی اصولوں کا احترام کہاں ہے؟۔ سوشل میڈیا دوہرے معیار کے الزامات سے بھڑک رہا ہے۔ کیا دوسرے مذہبی گروہوں کے ساتھ اس طرح کی بربریت برداشت کی جائے گی؟ یہ سوال بھارتی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر ممکنہ تعصبات کو بے نقاب کرتے ہوئے گہرا اثر چھوڑ چکا ہے۔ پولیس کا کردار قانون کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ جج، جیوری اور جلاد۔
گر کوئی خلاف ورزی ہوئی بھی تھی تو قانونی ذرائع استعمال کیے جانے چاہیے تھے نہ کہ ظالمانہ طاقت سے۔ یہ واقعہ قانونی حیثیت سے بالاتر ہے یہ مذہبی آزادی پر ایک صریح حملہ ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کی بات اس لئے کی کہ سڑکوں پر ہندو سمیت قریباََ ساری مذہبی اکائیاں جشن بھی مناتی ہیں، لیکن مسلمانوں میں یہ عمل کم ہے، کیونکہ نماز کی ادائیگی کے لئے نماز جمعہ، عیدیں اور بالخصوص رمضان المبارک کے ایام میں عام دنوں کے بانسبت تعداد زیادہ ہوتی ہے اور مساجد میں جگہ کی کمی کی وجہ سے سڑکوں پر مذہبی شعائر کی ادائیگی کی جاتی ہے، سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں، یہ ایک بڑی بے چینی کی علامت ہے ۔ عدم برداشت کا رینگتا ہوا زہر اب گلیوں سے لے کر اداروں تک، تعصب بھارتی معاشرے کے تانے بانے کو پھاڑ دینے کا خطرہ ہے۔ جب قانون کو برقرار رکھنے کا حلف اٹھانے والے خود نفرت کا آلہ بن جاتے ہیں، تو یہ ایک خوفناک پیغام بھیجتا ہے۔
اسے نئے معمول کے طور پر قبول نہیں کر سکتے، اور کرنا بھی نہیں چاہیے۔ احتجاج میں احتساب کا مطالبہ کیا گیا۔ ذمہ داروں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ، رسمی کارروائیوں میں صرف رسمی معطلی سنگین مسئلے کا حل نہیں ہے، صرف سزا ہی کافی نہیں ہے۔ بھارت کو انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے ریاستی پالیسیوں کو اصلاح کی ضرورت ہے ہمدردی، تفہیم، اور تنوع کے احترام کے لیے ایک تجدید عہد کرنا ہوگا۔ اس واقعہ کو مسلم امہ جاگنے کی کال کا کام کرنے دیں۔ مسلم اکثریت ممالک کو سنجیدگی سے دیکھنا اور غور کرنا ہوگا کہ دہلی کی گلیوں اور اپنی قوم کی روح کو تقسیم کی قوتوں کے عزائم پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ اسلام مخالف ہیں، بھارتی انتہا پسند قیادت پاکستان کی مخالفت میں ایسی شرمناک پالیسیاں نہیں اپناتی، بلکہ اس کا نظریہ ریاست، ہندو توا اور آر ایس ایس کا مسلم مخالف ایجنڈا بن چکا ہے۔ مودی سرکار کو شپ اپ کال کی ضرورت ہے کہ انہیں ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہیے جہاں عقیدے کا احترام کیا جائے نہ کہ لات ماری جائے۔ مقامی کمیونٹی اور وسیع تر عوام دونوں کی طرف سے ردعمل تیز اور غیر واضح رہا ہے۔ لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ مسلم اکثریتی ممالک کی خاموشی اور سفاکیت کی اس لہر میں مالیاتی لالچ کا معیار کیوں اپنایا جاتا ہے کہ ان گہرے تعصبات اور تعصبات کو بے نقاب کرتے ہیں۔ درحقیقت، حکومت کا کردار قانون کی بالادستی اور عوامی تحفظ کو یقینی بنانا ہے، لیکن کسی بھی مبینہ خلاف ورزی سے نمٹنے کے لیے قانونی ذرائع استعمال کرنے کے بجائے تشدد اور بدسلوکی کا سہارا لینا نہ صرف ناقابل قبول ہے۔
اندر لوک میں پیش آنے والا واقعہ عدم برداشت اور امتیازی سلوک کے وسیع تر رجحان کی علامت ہے جو پورے آزاد معاشرے کے مختلف پہلوں میں پھیل چکا ہے۔ سڑکوں سے لے کر اقتدار کے گلیاروں تک، نفرت اور تعصب کا زہر ان بندھنوں کو زائل کرنے کا خطرہ ہے جو بحیثیت قوم ایک دوسرے سے باندھے تصور کئے جاتے ہوں۔ جب آئینی ادارے بھی، جن کا مقصد تمام شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرنا ہے، تعصب سے داغدار ہوتے ہیں، اس وقت تک بھارت سے ایک زیادہ جامع اور ہمدرد معاشرے کی تعمیر کے لیے کوئی جھوٹی امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تمام افراد چاہے ان کے مذہب یا پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں، ظلم و ستم یا امتیاز کے خوف کے بغیر امن سے رہ سکیں اور عبادت کر سکیں۔ تب ہی صحیح معنوں میں ایک ایسی قوم ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہیں جو مساوات، انصاف اور سب کے لیے احترام کی اقدار کو برقرار رکھتی ہے۔ مسلم امہ کا تصور زندہ کرنا ہوگا ، یہ کسی ملک میں کسی مسلمان کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جیسے زندہ لینے کے لئے سانس ۔۔۔